آج سے صرف پانچ برس پہلے کوئی شخص اس طرح کی کسی یونیورسٹی کے وجود کا ذکر کرتا تو شائد مجھ سمیت ہر کوئی اسے ایک دیوانے کے خواب سے ہی تعبیر کرتا کہ فی زمانہ جس ملک میں دو کروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہوں اور جہاں تعلیم سب سے زیادہ چلنے والا بزنس بن جائے ایک ایسی یونیورسٹی کا تصور جس میں بلاسود قرض کی طرح بِلافیس اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو زیادہ سے زیادہ کسی خیالی دنیا کی کوئی واردات ہی لگ سکتی ہے یوں تو روئے زمین پر انسانی حوصلے، محنت اور لگن کے تعمیر کردہ بہت سے شاہکار بکھرے پڑے ہیں مگر ہماری یعنی تیسری دنیا کی طرف اس ضمن میں عمومی طور پر ایک سنگین سناٹے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ایسے میں جب ہم اخوت یونیورسٹی کی عمارت کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں تو دل اُن لوگوں کے لیے جذبہ تحسین سے بھرجاتا ہے جنھوں نے اس بظاہر انہونے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کیا یوں تو ہر وہ شخص جس نے اس عمارت میں استعمال ہونے والی ایک یا ایک سے زیادہ اینٹ کے لیے عطیہ دیا مبارکباد کا مستحق ہے لیکن جس شخص نے اسے سوچا اور اس تصورکو حقیقت کی شکل دی وہ ایک بار پھر ہم سب کے جانے پہچانے اور معتبر دوست ڈاکٹرامجد ثاقب ہی ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر اور خوشی ہے کہ اخوت کی ابتداء سے ہی میرا اُن سے ایک ایسا مضبوط تعلق استوار ہوگیا جو قائم و دائم بھی ہے اور روزافزوں بھی۔
بیس سال قبل جب ڈاکٹر صاحب نے اس بلا سود قرضوں کے اجرا کا سلسلہ شروع کیا تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ایک دن اس کا دائرہ تیس لاکھ خاندانوں اور 125 ارب روپے تک بھی پھیل سکتا ہے اسی طرح جب اخوت نے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا اور ایک ایسی یونیورسٹی کا خیال پیش کیا جس کی صرف عمارت کی لاگت کا تخمینہ پچاس کروڑ کے لگ بھگ تھا اور اس کے ساتھ یہ اعلان بھی تھا کہ اس کے لیے ایک پیسہ بھی اخوت کے قرض حسن فنڈ سے نہیں لیا جائے گا۔
"قرض حسن" اور "مواخات" پروگرام میں جس ذہنی، روحانی اور سماجی تعلق نے مہمیز کا کام دیا تعلیم اوربالخصوص اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جس کی اپیل بوجوہ کس قدر محدود تھی اس کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کو جاننے اور ماننے کے باوجود ہم سب دوست تذبذب میں تھے کہ بظاہر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں سراسر ناممکن بھی تھا کہ اس کے منتخب شدہ غریب، کم وسیلہ مگر باصلاحیت بچوں سے فیس لینا تو درکنار اُلٹا اُن کی رہائش، کھانے پینے اور کتابوں وغیرہ کا خرچ بھی یونیورسٹی کے ذمہ ہوگا۔
کوئی دو برس قبل ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ڈنمارک تک کے ایک سفرمیں مجھے اُن سے اس موضوع پر تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملاتو ایک بار پھر میرے دل میں اس شخص کے لیے محبت، احترام اور دُعا یکجا ہوگئے اور مجھے احساس ہوا کہ ا گر نیت نیک، ارادہ مضبوط اور موضوع زیربحث کی صورتِ حال اور اس میں موجود امکانات پر گرفت مکمل ہو تو دیوار میں دروازے خود بخود بننا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی کی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ نہ صرف شروع ہوگیا بلکہ وہاں پاکستان کے ہر صوبے سے 5% کوٹا کے حساب سے تین سو بچوں کی رہائش اورتعلیم کا نہ صرف آغاز ہوگیا ہے بلکہ اس دوران میں اخوت نے تین مزید تعلیمی اداروں کا انتظام بھی سنبھال لیا ہے جن میں ایک خالصتاً بچیوں کے لیے ہے اس وقت یہ ادارے ہائی اسکول اور کالج کی سطح تک ہیں مگر بہت جلد عمارات کی تعمیر اور قانونی مراحل کی تکمیل کے بعد یہ ایک باقاعدہ یونیورسٹی کے حصار میں آجائیں گے۔
کچھ عرصہ قبل میرے بیٹے علی ذی شان امجد نے جو ڈاکیومنٹری فلمیں بناتا ہے اور اس ضمن میں اخوت اور ڈاکٹرصاحب سے بھی رابطے میں رہتا ہے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے کسی عمرے کے دوران "اخوت" کے لیے ایک ترانہ لکھا تھا جسے اب میوزیکل فارم میں کمپوز اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کرانا چاہتے ہیں یہ تو مجھے پتہ تھا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا شعر کا ذوق بہت اچھا ہے اور انھیں اس کے فنی حوالوں سے بھی معقول آشنائی ہے مگر وہ خود بھی شعر کہہ سکتے ہیں یہ میرے لیے بھی ایک اطلاع تھی میں نے وہ ترانہ پڑھا اور یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جذبے اورموضوع کے ساتھ ساتھ وہ شاعری کے دیگر پیمانوں پربھی پورا اُترتا تھا میں نے دو چار مصرعوں کے بارے میں انھیں اپنی رائے سے آگا ہ کیا اور ساتھ ہی ازراہِ تفنن یہ بھی عرض کردیا کہ آپ نے ہمارے چھابے میں کیوں ہاتھ مارنا شروع کر دیا ہے، انشاء اللہ وہ خوبصورت اور انتہائی اثر انگیز ترانہ بہت جلد آپ کی دسترس میں ہوگا اور آپ جان سکیں گے کہ بڑے خواب دیکھنا اور پھر انھیں تعبیر دینا اس شخص کا شوق ہی نہیں، فطرت ہے۔
گزشتہ اتوار اِسی یونیورسٹی کے حوالے سے ایک تعارفی برنچ میں شمولیت کے لیے علی ذی شان کے ساتھ قصور کی طرف جاتے ہوئے قینچی امر سدھو سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر جب ہم یوٹرن لے کر نہر کے ساتھ ساتھ ایک نسبتاً تنگ اور نیم پختہ راستے پر چلنا شروع ہوئے تو ایک بار پھر میرے دماغ میں اس خدشے نے سر اُٹھانا شروع کیا کہ اس ویرانے میں پڑھے گا کون اور پڑھائے گا کون مگر تقریباً دس منٹ کی مسافت کے بعد جوں ہی ہم یونیورسٹی کے بڑے گیٹ کے سامنے پہنچے توہر سوال کا جواب خود بخود ملنا شروع ہوگیا چھ منزلہ خوبصورت عمارت کے سامنے ایک وسیع و عریض لان میں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا مگراُس سے پہلے میزبان طلبہ ہر آنے والے مہمان کو استقبال کے بعد اپنے اپنے حصے کی بریفنگ دے رہے تھے اُن کا لباس، رکھ رکھاؤ، تہذیب اور انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور بہت دلچسپ اور خوش کُن تھے۔
ابتدائی تعارف کے مرحلے کے بعد موجود میزبانوں اور مہمانوں سے دعا سلام ہوئی اور اس کے بعد ہمیں طالب علموں کے ایک اور گروپ نے گھیر لیا جس کے ذمے ہمیں عمارت کے اندر گھمانا اور اس کے مختلف حصوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا فی الوقت اسی عمارت کے اندر ایڈمن بلاک، کلاس رومز، ہاسٹل اور کیفے ٹیریا ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ایڈمن بلاک کی اپنی عمارت تکمیل کے درمیانی مراحل میں ہے اور اس کے بعد دیگر عمارتیں ایک ایک کرکے تعمیر ہوتی چلی جائیں گی۔
کسی نے بتایا کہ کھانے میں استعمال ہونے والی سبزیوں اور پھلوں کے لیے یونیورسٹی میں ہی ان کی کاشت کے لیے ایک رقبہ مختص کردیا گیا ہے جب کہ ایک باؤنڈری وال پر چودہ ہزار ڈونرز کے نام تحریر اور محفوظ کیے جائیں گے جنھوں نے ایک ہزار روپیہ فی اینٹ کے حساب سے وہ اینٹیں خریدیں جو اس یونیورسٹی کی تعمیر میں استعمال ہورہی ہیں۔
خوشگوار دھوپ میں مجیب الرحمن شامی اور دیگر دوستوں کے ساتھ (جن کی غالب اکثریت میڈیا سے متعلق تھی)گفتگو کے دوران یہ تذکرہ بھی بار بار ہوتا رہا کہ کورونا کی تباہ کاریوں، اپوزیشن کے جلسوں، حکومت کی اچھی بُری پالیسیوں، مہنگائی، سعودی عرب اور اسرائیل سے متعلق معاملات اور دیگر کئی مسائل کے باوجود اس طرح کی یونیورسٹی کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا معاشرہ اس قدر بے حس، بے سمت اور پسماندہ نہیں جیساکہ ہمیں روزانہ کے اخبارات اور ہرشام سات سے دس بجے تک الیکٹرانک میڈیا پربتایا اور دکھایا جاتا ہے۔
ایک مسئلہ البتہ فوری اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے کہ اچھے یا بُرے دونوں معنی میں ہمارے یہاں افراد اداروں سے بڑے ہوجاتے ہیں اور یوں کسی فرد کے منظر سے ہٹنے کے ساتھ ہی نہ صرف سارا منظر بدل جاتاہے بلکہ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے مثال اس لیے نہیں دوں گا کہ اس سے ان اداروں سے متعلق ایسے احباب کی دل شکنی ہوگی جو ان کے ساتھ دل و جان سے وابستہ تھے اورہیں مگر ادارے کی انتظامی کمزوری، لیڈر پر ضرورت سے زیادہ انحصار یا ذمے داری نبھانے کی عملی تربیت کی کمی کے باعث انتشار اور وژن کے بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔
" اخوت " بھی فی الوقت عملی طور پر ڈاکٹر امجد ثاقب کی ہمہ گیر اور مضبوط شخصیت کا دوسرا نام ہے مگر حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ انھوں نے اسے ایک جدید اور باقاعدہ ادارے کی سطح پر مستحکم اور استوار کیا ہے اور اپنے ساتھیوں کو صرف ساتھ لے کر ہی نہیں چلتے بلکہ عملی طور پر خود انحصاریت کی ایک ایسی روش کو بڑھاوا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے تنظیم کا ہر شعبہ ایک خود کار نظام میں ڈھلتا چلا جارہا ہے، سو امید کرنی چاہیے کہ ہمیں اخوت کی طرف سے اسی طرح کے اور بھی معجزے دیکھنے کو ملتے رہیں گے اور اس یونیورسٹی سے تعلیم پانے والی نسل ایک دن خود اس ادارے کو مزید آگے بڑھائے گی اور ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت ہم سب کسی اور عالم میں ہی سہی اس کی خوشبو سے بہرہ ور ہوتے رہیں گے۔