اس 2فروری کو اُس نے پچیس برس کا ہوجانا تھا جب کہ اُس کو اِس دنیا سے پردہ کیے تقریباً آٹھ برس ہوجائیں گے یعنی درمیان میں کُل ملا کر سترہ برس بنتے ہیں جس میں اُس نے ا س قدر اعزازات جمع کرلیے کہ بقول ڈاکٹر امجد ثاقب بیشتر لوگ ستّر برس کی عمر میں بھی اُن کے بارے میں صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔
اس وقت میرے سامنے اس عزیز بچی ارفعٰ کے والد امجد کریم رندھاوا کی لکھی اور غالباً اعجاز مہاروی کی مرتبہ حال ہی میں شایع ہونے و الی کتاب "ارفعٰ کریم" کا نسخہ ہے جس کا ذیلی عنوان "دختر پاکستان، جس کے عزم کے آگے کچھ نہ ٹھہر سکا"رکھا گیا ہے جس میں اس کے چند بہت ہی قریبی رشتہ داروں کی تحریروں کے ساتھ اُس کے کئی اساتذہ اور بہت سے اہلِ قلم و صحافت کے مضامین یکجا کردیے گئے ہیں۔
جن میں اُس کی مختصر زندگی کے مختلف ادوار کے ساتھ ساتھ اُس کے غیر معمولی کارناموں اور اُن سے متعلق ملنے والے انعامات و اعزازات کا اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے کہ پوری کی پوری ارفعٰ کریم مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ بعض واقعات کی تکرار سے گریز اس لیے نا ممکن تھا کہ بیشتر مضامین سوانحی اور تاثراتی نوعیت کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُس کی بِل گیٹس سے ہونے والی ملاقات کا ذکر بار بار سامنے آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس تاریخ ساز کارنامے کی وجہ سے یہ ملاقات عمل میں آئی اُس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔
نو برس کی عمر میں جب وہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی، دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرکے سائبرپرنسس کا اعزاز حاصل کرنا یقیناایسا کارنامہ ہے جس نے اُس کا ہی نہیں بلکہ اس کے ملک اور معاشرے کا نام بھی نہ صرف دنیا بھر میں بلند کیا بلکہ اسلام سے منسوب اور پھیلائی گئی منفی خبروں کا ایک ایسا بھرپور اور دندان شکن جواب دیا کہ یورپی دنیا دنگ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی رائے تبدیل کرنے پر بھی مجبور ہوگئی۔
اُس کے والد اور والدہ کی تحریریں بے حد پُراثر ہونے کے علاوہ اُس کی غیر معمولی شخصیت کے بعض ایسے گوشوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ان انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کا تعلق کچھ ایسے عوامل سے تھا جو اُسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئے تھے اور جن کا اظہار اُس وقت ہی شروع ہوگیا تھا جب ابھی وہ لکھنے پڑھنے بلکہ بولنے کے قابل بھی نہیں ہوئی تھی۔
وہ اُس عمر میں کسی سوال کی تہہ تک پہنچنے اور کمپیوٹر کی پیچیدہ ترین اصطلاحوں اور کارکردگی کے اسکوپ کو سمجھنے کے قابل ہوگئی تھی، جب ابھی بیشتر بچے کمپیوٹر کے مائوس اور بلی والے چوہے کے درمیان فرق کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔ درسی مضامین کے ساتھ ساتھ موسیقی اور تخلیقی نثر پر اُس کی دسترس انتہائی غیر معمولی تھی جس کا ذکر اس کے والدین اور اساتذہ نے مختلف حوالوں سے کیا ہے" ارفع کا فلسفہ حیات"کے زیر عنوان لکھے گئے باب میں اس حوالے سے یہ سطریں خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔
"یہ اُس کا اپنے اردگرد اور قریبی لوگوں کے ساتھ برتائو اور روّیہ تھا جب کہ بڑے اور وسیع پیمانے تک اس جذبے کو بڑھانے کے لیے اس کے خواب بہت بلند اور واضح تھے۔ وہ ملک میں کمپیوٹر، سائنس اور جدید تعلیم کو عام کرنا چاہتی تھی جس تک گائوں کے بچوں کو بھی مکمل رسائی ہو اور کم وسائل رکھنے والے بچے بھی مفت تعلیم حاصل کرسکیں، وہ ڈجیکون ویلی (Digicon Valley) قائم کرنا چاہتی تھی جس کا افتتاح بِل گیٹس کے ہاتھوں کرانے کی خواہش مند تھی۔ وہ کہا کرتی تھی کہ شرکت میں ہی برکت ہے(Sharing is Caring)"
"اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقد ہونے والی ٹیک ڈویلپرز کانفرنس کا مرکزی خیال Stay ahead of the game یعنی "اپنے شعبے میں مہارت میں سب سے آگے رہو" تھا اس سلسلے میں دنیا بھر سے شریک پانچ ہزار سافٹ ویر انجینئرز اور ماہرین کے سامنے ارفعٰ کو کانفرنس کے مرکز ی خیال کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ پاکستانی بچی دنیا کی کم عمر ترین لڑکی ہے جو کانفرنس کی تھیم پر پوری اُترتی ہے"
اسی طرح ملاقات کے دوران بِل گیٹس نے پاکستانی خواتین کے نقاب اوڑھنے یعنی پردہ کرنے اور ترقی کی د وڑ میں پیچھے رہ جانے کا تذکرہ کیا تو نو سالہ ارفع نے کہا۔"کبھی آپ میرے ملک پاکستان آئیں، میں آپ کو کسی بڑے شہر میں نہیں بلکہ اپنے گائوں 4 گ ب رام دیوالی لے کر جائوں گی، وہاں عورتیں اپنی مرضی کا لباس پہنتی ہیں اور زندگی کی دوڑ میں مردوں کی طرح شریک ہوتی ہیں، انھیں کوئی نہیں روکتا، کوئی مجبور نہیں کرتا، پھر ارفع نے پلٹ کر بڑی خود اعتمادی کے ساتھ بل گیٹس سے سوال کیا، آپ کے پاس تو عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ میں جاننا چاہوں گی کہ کیا مائیکروسافٹ میں عورتیں مردوں جتنی تعداد میں اپنی ذمے د اریاں نبھا رہی ہیں۔" ارفع نے بِل گیٹس سے ملاقات کے دوران ایک تاریخی فقرہ بھی کہا تھا کہ آپ مائیکروسافٹ کی ایک دیوار تعمیر کر رہے ہیں لیکن میں اس میں دروازہ بنا رہی ہوں۔"
ارفع کی ناگہانی موت نے یقینا اُس کے والدین کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو سوگوار کر دیا کہ جس طرح کی اُس کی اُٹھان تھی اگر اُسے مزید وقت ملتا تو یقینا وہ کمپیوٹر کی دنیا میں ایسے کارنامے سرانجام دے سکتی تھی کہ جو اُسکے حالیہ بے مثال کارناموں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے۔ لاہور میں اُسکے نام کیا جانے والا ارفع کریم ٹاور قومی سطح پر اُس کے لیے ایک غیر معمولی خراجِ تحسین ہے کہ ہمارے یہاں اپنے ہیروز کو عزت دینے کی روائت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کتاب کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ جس اُستاد نے چھ برس کی عمر میں اُسکی صلاحیتوں کو محسوس کرکے جی جان سے اُسکی تربیت کی تھی اور جس کی مدد اور کوشش سے وہ اس عالمی اعزاز تک پہنچنے کے قابل ہوئی تھی اُسکی خدمات کا آج تک کسی نے اعتراف نہیں کیا اور وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لیے غالباً آج کل دوبئی میں کوئی جاب کر رہا ہے۔
وہ ارفع کے لیے اُسی طرح تھے جیسے علامہ اقبال کے لیے مولوی میرحسن۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ ارفع کریم فائونڈیشن اس طرف بھی توجہ دے گی اور یقینا یہ عمل ارفع کریم کی روح کے لیے بھی باعث تسکین ہوگا۔
اپنے اولین اعزاز(2005) سے اپنی رحلت کے لمحے (2013) تک ارفع کریم نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے جو نیک نامی کمائی وہ اس کا انفرادی ہی نہیں بلکہ ساری قوم کا ایک اجتماعی فخراور اثاثہ بھی ہے اور ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے، رندھاوا فیملی کا کہ نہ صرف انھوں نے ا س آسمانی تحفے کی بھر پور تربیت کی بلکہ اب اس کی زندگی اور یادوں کو بھی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے اور یوں اس کتاب کے لیے ہر قاری کے دل میں بھی ایک ایسا ارفع کریم ٹاور قائم ہوگیا ہے جو اُس کے خوابوں کی روشنی دور تک اور دیر تک پھیلاتا رہے گا۔