اطہر شاہ خان سے میری پہلی ملاقات 1966 کے وسط میں ہوئی۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجّلے "محور"کا نیا نیا چیف ایڈیٹر منتخب ہوا تھا۔ سید علی ثنا شاکر بخاری جوایم اے اُردو میں میرے کلاس فیلو بھی تھے اور بعد میں سول جج ہوکر ریٹائر ہوئے اور نرگس پروین جو آرٹ کونسل کی ملازمت کے بعد پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وفاقی وزیر مختار اعوان کی بیگم بنیں، عملہ ادارت میں میرے ساتھی مقرر ہوئے۔
ہم تینوں اُس وقت کے زیر تعمیر نیو کیمپس کی کینٹین کے اوپر واقع اپنے دفتر میں بیٹھے آیندہ پرچے کے مندرجات کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے کہ ایک دوست کے ہمراہ اطہر شاہ خان اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے وہ اُس وقت جرنلزم کے شعبے میں زیر تعلیم تھے لیکن اُن کا زیادہ بھاری تعارف یہ تھا کہ وہ اُس وقت بھی ریڈیو پاکستان لاہور اور پی ٹی وی لاہور کے لیے نہ صرف باقاعدگی سے لکھ رہے تھے بلکہ اُن کی تحریریں بہت پسند بھی کی جارہی تھیں اور دراصل اُن سے یہ ملاقات ہی آگے چل کر میرے ٹی وی رائٹر بننے کی بنیاد اور وجہ بنی۔
میں اپنے تقریباً ہر انٹرویو میں اس بات کا اقرار اور اظہار کرتا ہوں کہ مجھے ٹی وی کی راہ دکھانے اور حوصلہ افزائی کرنے والا پہلا بندہ اطہر شاہ خان ہی تھا، یہ اور بات ہے کہ اس ملاقات اور میری پہلی نثری تحریر کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے درمیان تقریباً چھ برس کا وقفہ ہے جو یقیناً بہت مایوس اور فراسٹریٹ کرنے والا زمانہ تھا کہ ایک طرف تو اُس زمانے کی ایک بہت مقبول مزاحیہ سیریز "لاکھوں میں تین" کا مصنف اطہر شاہ خان مجھے مسلسل یہ یقین دلا رہا تھا کہ میں ڈرامہ لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں اور دوسری طرف ٹی وی کے متعلقہ افسران کسی صورت اس خیال کی تائید کرتے نظر نہیں آرہے تھے۔
اس پُر آشوب دور میں میرے دل کے علاوہ صرف اطہر شاہ خان ہی وہ شخص تھا جو مجھے مسلسل حوصلہ دیتا رہا اور اُس کا یہ احسان ایسا ہے جو میں مرتے دم تک یاد رکھوں گا آگے چل کر "وارث" وغیرہ کے بعد مجھے بطور ڈرامہ نگار بے شمار ایوارڈ ملے مگر میرے نزدیک ان سب پر اطہر شاہ خان کا یہ جملہ بھاری تھا کہ "دیکھو میں نہ کہتا تھا" گزشتہ دنوں کراچی میں قیام کے دوران میں نے اُس سے ملاقات کی بہت کوشش کی مگر مجھے بتایا گیا کہ وہ ان دنوں اپنے بیٹے کے پاس دبئی میں رہیں اور یہ کہ فالج کے حملے کے بعد وہ کہیں باہر آنے جانے سے معذور ہے یہ جان کر کچھ تسلی سی ہوئی کہ اُس کے بچے اُس کا بہت خیال رکھ رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے بعد اُس سے زیادہ تر ملاقاتیں ریڈیو پاکستان کی کینٹین یا جمیل ملک اور عتیق اللہ شیخ کے کمروں میں ہوئیں کہ یہ دو دفتر اُس وقت کے ریڈیو پاکستان لاہور کے سب سے آباد اور معروف دفتر تھے۔ اطہر شاہ خان بے حد زود نویس تھا۔ ریڈیو کی کینٹین میں جہاں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور بھانت بھانت کے لوگ مسلسل آتے جاتے رہتے تھے۔
اطہر شاہ خان نہ صرف چائے پینے کے دوران سامنے والے لوگوں سے مسلسل ہنسی مذاق کی باتیں کرتا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کسی ڈرامے یا ریڈیو پروگرام کا اسکرپٹ بھی ایسے لکھتا جاتا تھا کہ آپ کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آتا تھا اور مزے کی بات ہے کہ ان تحریروں میں کسی موضوع کی پابندی نہیں تھی ریڈیوکے اس تجربے کی وجہ سے اُس کی ٹائمنگ کی صلاحیت حیرت ناک حد تک پرفیکٹ ہوگئی تھی کہ اُس کا لکھا ہوا اسکرپٹ عین اس پروگرام کے دیے گئے وقت کے مطابق ہوتا تھا اور کم و بیش یہی معاملہ اُس کے ٹیلی اسکرپٹس کے ساتھ بھی تھا حالانکہ مزاحیہ کھیلوں میں کرداروں کے ایکشن اور ری ایکشن کی بے ترتیبی اور اچانک پن کے باعث ایسا حساب رکھنا کہ کم و بیش نا ممکن ہوتا ہے غالباً ستر کی دہائی کے وسط میں وہ کراچی شفٹ ہوگیا اسی دوران میں اُس نے اپنے بڑے بھائی ہارون پاشا کی وساطت سے (جو پہلے سے فلم انڈسٹری سے منسلک تھے) کچھ فلموں کے لیے لکھا اور "آس پاس" نامی ایک فلم ڈائریکٹ بھی کی مگر یہ دنیا انھیں راس نہ آ سکی کہ وہ ایک سیدھا، سچا اور مخلص تخلیقی فنکار تھا جب کہ انڈسٹری میں چلنے والی کرنسی کچھ اور تھی۔
کراچی ٹی وی سے یوں تو اس نے یکے بعد دیگرے بہت سے کامیاب اور مقبول سیریل لکھے تھے لیکن اُس کا لکھا ہوا کردار جیدی جسے وہ ایکٹ بھی خود ہی کرتا تھا سب پر بازی لے گیا اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ اس کی گونج مختلف ریڈیو پروگراموں میں بھی سنائی دیتی رہی، اس کے مزاح کا اصل جوہر زبانوں کے امتزاج اور لہجے کی کارگاہوں میں کھلتا تھا Absurd یعنی مہمل اور بظاہربے معنی مزاح میں وہ جس باریکی اور خوش اسلوبی سے معنی پیدا کرتا تھا، وہ اُسی کا حصہ تھا ریڈیو کے لیے اسکرپٹ نگاری سے لے کر ٹی وی ڈرامہ، صدا کاری، اداکاری اور ہدایت کاری تک ہر میدان میں اُس کے جو ہر کھلتے چلے گئے اور وہ اَن تھک انداز میں مزاح تخلیق کرتا چلا گیا اس کا شعری ذوق بہت اچھا تھا لیکن کئی برس تک کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ سنجیدہ اور مزاحیہ ہر دو میدانوں میں بہت اچھے شعر کہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کسی چیز کو عام انداز سے ہٹ کر کسی انوکھے زاویے سے دیکھنا اور پھر بڑے موثرانداز میں بیان کرنا ایک ایسا کمال تھا جس پر اُس جیسی گرفت میں نے اپنے بہت کم ہم عصروں میں دیکھی ہے مثال کے طور پر اُس کا یہ شعر
ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اُتر آیا
تو ایسا ہے کہ آپ جب بھی سنیں ایک نیا مزا دیتا ہے۔ بیماری سے کچھ عرصہ پہلے تک اس نے باقاعدہ مشاعروں میں نہ صرف شرکت شروع کر دی تھی بلکہ سید ضمیر جعفری، دلاور فگار اور انور مسعود کے بعد وہ چوتھا ایسا شاعر بن کر اُبھرا جو اخلاقی دور میں رہتے ہوئے سیچوئیشن یعنی صُورتِ حال اور لفظوں کے اُلٹ پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتا تھا کہ جس کو سارے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر خوشدلی سے سنا جا سکتا ہو۔
وہ جتنا باکمال اور گُنی مزاح نگار تھا اتنا ہی اچھا انسان اور دوست بھی تھا اور فی زمانہ یہ باتیں ایسے خوب صورت توازن کے ساتھ بہت ہی کم دیکھنے میں آئی ہیں پی ٹی وی پر جن لوگوں نے مزاح کو عزت اور وقار سے بہرہ ور کیا ہے ان میں اطہر شاہ خان کا نام ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھا اور لیا جائے گا۔ رب کریم اُس کی روح پر اپنا کرم فرمائے کہ وہ اُس کے بندوں کو خوش رکھتا تھا اور یہ سعادت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی کہ اطہر شاہ خان جیسے بندے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔