اسے ٹرمپ کے آیندہ الیکشن کی کارروائیوں میں سے ایک کارروائی کہیئے یا اسرائیل کی ایک ایک کرکے اپنے تمام ہمسایہ عرب ممالک کی بیخ کنی۔
یہ امر اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ 1968ء کی جنگِ حزیران میں شکست کھانے کے بعد فلسطین کے عوام آج تک جس بے کسی، بے بسی اور اپنے انسانی حقوق کی برسرِعام پامالی کے آشوب میں مبتلا ہیں، اُس کی کوئی دوسری مثال کم از کم اس وقت روئے زمین پر موجود نہیں۔
دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے اور انسانی حقوق کی حفاظت کا بندوبست کرنے و الے جتنے ادارے ہیں، سب کے سب نہ صرف خاموش ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے اسرائیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی جارحیت اور فلسطینی زمینوں پر مزید قبضے کی روش کو بھی ایسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جن میں تہدید کے بجائے تائید کا غلبہ ہے۔
چند دن قبل متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے امن معاہدہ کیا ہے، اگرچہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی اور یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی موجود ہے لیکن قبلہ اول یعنی بیت المقدس کے حوالے سے اسرائیل کا زیادہ دبائو وہاں کی مسلمان آبادی پر ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو تسلیم کیے بنا ہی اُس سے مختلف طرح کے رابطے اور تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے آج ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان رابطے نہ صرف موجود ہیں بلکہ پچاس کی دہائی سے قائم چلے آرہے ہیں البتہ جہاں تک سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی معاہدوں کی حد تک تعلقات کا مسئلہ ہے تو اُس میں پاکستان کی ہر حکومت نے کم و بیش اس اصول کی پابندی کی ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا اور انھیں آزادی اور عزت سے محفوظ رہنے کی گارنٹی نہیں دیتا وہ اُس کو ایک باقاعدہ ملک کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے اور یہی وہ موقف ہے جس کو موجودہ حکومت نے بھی بڑے واضح الفاظ میں دہرایا ہے۔
فلسطین کے مسئلے اور فلسطینیوں کی ذہنی فضا کو سمجھنے کے لیے یاسر عرفات سے لے کر اب تک کے رہنمائوں تک سب سے زیادہ موثر اظہار وہاں کے شاعروں کا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں میں نے چھ منتخب شاعروں کی نظموں کے منظوم تراجم "عکس" نامی مجموعے کی شکل میں جمع اور شایع کرائے تھے، یہ سب کی سب نظمیں جنگ حزیران(1968)کے پاس منظر یا ردّعمل میں لکھی گئی تھیں جس کے فیض سے نزاد قبانی اور محمود درویش جیسے رومانی شاعر بھی "انقلابیوں " کی صف میں شامل ہوگئے۔ اس مزاج کو سمجھنے کے لیے پہلے سمیح القاسم کی ایک مختصر نظم دیکھئے۔
"ایک دن ان لہو میں نہائے ہوئے
بازئوں میں نئے بال و پر آئیں گے
وقت کے ساتھ سب گھائو بھر جائیں گے
ان فضائوں میں پھر اُس پرندے کے نغمے
بکھر جائیں گے
جو گرفتِ خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے سرخ پُھولوں کے کانوں
میں یہ کہہ گیا
ایک لمحہ ہو یا اک صدی دوستو
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروں کی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹائوں گا
فاصلوں کی فصیلیں گراتا ہوا
میں ضرور آئوں گا۔ میں ضرور آئوں گا"
اسی طرح ایک قدرے مختلف روّیہ نزاد قبانی جیسے شاعروں کا بھی ہے جو اس صورتِ حال کو اسرائیلی جارحیت کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی عمومی بے حسی اور ایک طرح کی خود احتسابی کی فضا میں دیکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظم ستر کی دہائی کے اوائل میں لکھی گئی تھی۔ موجودہ حالات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے نزاد قبانی نے یہ نظم آج کل ہی میں لکھی ہو۔
اس کا عنوان "ایک بدّو سے گفتگو، جس کا گھوڑا کھو گیا ہے " ایسا برمحل اور موثر ہے کہ آدھی نظم تو صرف اس عنوان سے ہی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس میں اُس نے اپنے دور کے اہلِ قلم کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کے اُن حاکموں اور سرداروں پر بھی تنقید کی ہے۔ یہاں میں صرف اس نظم کا وہی حصہ درج کر رہا ہوں کہ یہ ایک طویل نظم ہے۔ شاعر کے زورِ بیاں کے ساتھ ساتھ اُس کے فکر و نظر کی گہرائی اور اپنے معاشرے سے کمٹ منٹ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
"مرے وطن اے زمین میری
مری دُعا ہے کہ سوکھ جائے ترے کُنوئوں کی یہ بہتی دولت
سوائے پانی کے سب فنا ہو
جو تیری چاہت سے منحرف ہیں، انھیں سزا ہو
میں چاہتا ہوں تو نگروں کے محل، محلوں کے سُرخ کمرے
جدید سائنس کے معجزوں کے کمال، کلچر کی خوش نمائی
سفید آقائوں کی وراثت جلا وطن ہو
حسین تاجوں میں جگمگاتے ہوئے جواہر
غریب لوگوں کی جُوتیوں میں مقام پائیں
اگر وطن میں مجھے کوئی اختیار ہو تو
میں اپنے صحرا میں پلنے والے
نئے امیروں کے بھاری خلعت اُتار پھینکوں
اور اُن کے چہروں کو اس ملمع سے پاک کردوں
جسے سجا کر
یہ اپنے اہلِ وطن سے ظاہر میں مختلف ہیں
انھیں بٹھائوں بغیر زینوں کی گھوڑیوں پر
سلائوں صحرا کی سرد راتوں میں
جب سروں پر کُھلا فلک ہو
پلائوں ان کو وہ دودھ جس سے
نظر میں ان کی وہی چمک ہو
جواُن کے ناموں کا حاشیہ ہے
عرب شجاعت کا اور غیرت کا نام، جس سے
تمام تاریخ آشنا ہے"