اس وقت پوری قوم بلکہ انسانیت جس امتحان سے گزر رہی ہے اس کی کوئی مثال اگر طوفانِ نوح کے علاوہ ہو تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے، سو یہ وقت ایک دوسرے پر تنقید یا پرانی دشمنیاں نکالنے یا اہلِ مغرب کو صرف یہ بتانے کا نہیں کہ ربِ کریم کیسے ایک لمحے میں ہر طرح کے تکبر کے بُت کو پاش پاش کردیتا ہے اورنہ ہی ہر خبر کے بُرے پہلو کو اُچھال کر قوم کو مزید پریشان اور فرسٹریٹ کرنے کا ہے، حکومت ہو یا اپوزیشن، میڈیا ہو یا عوام اس وقت ضرورت عملوں کا پوسٹ مارٹم کرنے یا نیتوں کا حساب لگانے کا نہیں کہ اس کے لیے تو وہ ساری عمر پڑی ہے جس کو اس وقت "بچانا" اصل مسئلہ ہے۔
حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ جو رفاعی تنظیمیں دن رات اپنی اپنی توفیق کے مطابق کام کر رہے ہیں انھیں تحمل، تفکر اور حوصلے کے ساتھ ساتھ اس وقت حکومت سمیت ہم سب کے تعاون اور تحسین کی بھی ضرورت ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے "الخدمت" کے میاں عبدالشکور سے بات ہورہی تھی، انھوں نے آئیڈیا دیا کہ نوجوانوں کو (کسی سیاسی وابستگی کے بغیر) involve اور متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اُن بے شمار سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی ساتھ ملانے کی ضرورت ہے جن کا پورا ریکارڈ موجود اور دستیاب ہے، اگر ہم کسی اور ایمرجنسی کے وقت اُن کے تدریسی وقت کو قوم اور معاشرے کی خدمت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں تو اب کیوں نہیں کہ اس وقت وہ فارغ بھی ہیں اور نوجوانوں سے زیادہ مرتب اور باصلاحیت بھی۔
میں نے ایک شاعر ہونے کے حوالے سے اپنی ذمے داری پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایکسپریس چینل اور اس سے متعلقہ تمام فورمز پر یہ نظم دیکھی اورسُنی جاسکتی ہے۔ اس کالم کی معرفت میں اِسے قارئین تک بھی پہنچا رہا ہوں کہ یہ نظم اصل میں پوری قوم کی ہے اور یہ سلام ہم سب کے نام ہے۔
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
ہمتّ کی اور عزم کی دیوار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
قُربت کے اور دُوری کے عنواں بدل دیے
اک فاصلے میں ڈھونڈ لیں نزدیکیاں کئی
بدلا جو درد، ساتھ ہی درماں بدل دیے
حکمت اور اعتماد کے اظہار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
تاریکیوں میں ڈوبتا رستہ اُجال کر
ٹھہرا رہا جو موت کی آندھی کے سامنے
خود اپنی زندگانی کو خطرے میں ڈال کر
اُس جنّتی چراغ کے کردار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ، ایثار کو سلام
جتنے بھی کم وسیلہ تھے، جو بھی جہاں بھی تھے
ایسے انھیں شریک کیا اپنے رزق میں
یکسر یقیں میں ڈھل گئے جتنے گماں بھی تھے
خدمت کی اس بہار کی مہکار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
ہم مل کے سب ہیں ایک، کوئی دوسرا نہیں
سب کی ہو جس میں خیر، اُسی راہ پر چلیں
منزل کی سمت اِس کے سواراستہ نہیں
خود غرضیوں کی دوڑ سے انکار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
ہر تجربے کی راکھ میں ہوتا ہے اک سبق
یہ اُنس، یہ خلوص، یہ چاہت کی روشنی
رکھنا انھیں سنبھال کے اے رہر وانِ حق
آتے دنوں کے مطلعِ انوار کو سلام
اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام
یوں تو بہت سی باتیں ہیں بھی اور کی بھی جاسکتی ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ غلطیاں دانستہ نہ سہی مگر ہم سب سے ہوتی ہیں اور اس وقت بھی کہیں کہیں ہورہی ہیں مگر سوشل میڈیا ہو یا باقاعدہ میڈیا برائے خدا اِن کی تصحیح کی بات کیجیے ان کو اُچھالیے نہیں۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم نے کہا تھا
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتو، بشرّیت سیکھو
تو برادرانِ من اسی بشریت کا تقاضا ہے کہ خیر کو پھیلایئے دوا اور دعا دونوں ساتھ ساتھ کیجیے، دلوں میں نرمی اور حوصلے کے ساتھ فکر میں سنجیدگی اور زبان میں مٹھاس کو قائم رکھیئے یہ وقت تو گزر ہی جائے گا دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم نے اسے گزارا کس طرح سے تھا
"یہ "بھی نہیں رہے گا اگر"وہ" نہیں رہا
کیسے پتے کی بات بتاتے ہیں روز و شب
پچھلے 24 گھنٹوں میں دو اور جانے پہچانے لوگ عبدالقاد ر جونیجو اور میر جاوید الرحمن بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ربِ کریم اُن کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے۔ عبدالقادر جونیجو سے میری ملاقات ٹی وی ڈرامے کی معرفت ہوئی مگر پھر یہ تعلق ذاتی دوستی میں ڈھل گیا وہ بہت باکمال، زندگی سے بھر پور اور نیک خو انسان تھا۔ اپنی زبان، تہذیب اور روایات سے پیار کرنے اور انھیں نبھانے والا۔ اس کا میٹھا لہجہ، محبت سے بھری آنکھیں اور صدا مسکراتا چہرہ، بے طرح سے یاد آرہے ہیں۔ بہت دنوں سے اُس سے ملاقات نہیں تھی۔
میری طرح اُس نے بھی ڈرامہ نگاری چھوڑ رکھی تھی لیکن جب کبھی کسی حوالے سے بات ہوتی تھی تو اس کی دانش اور محبت کا نقش مزید گہرا ہوجاتا تھا وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو اس ناقابلِ یقین حد تک وسیع کائنات کو "چھوٹی سی دنیا" میں بند کرنے اور سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں اس وقت جس قدر ٹی وی دیکھا جارہا ہے شائد پہلے کبھی کم ہی دیکھا گیا ہو کیا ہی اچھا ہو کہ پی ٹی وی والے آج کی نسل کو اُس کے کچھ کھیل پھر سے دکھادیں کہ یہ پیارا دوست اسی طرح کی ایک "یاد" ہے جس کی روشنی کبھی کم نہیں ہوتی اور جس کی طرف دیکھتے رہنے سے زندگی کا شعور اور اُس پر اعتماد قائم بھی رہتا ہے ا ور محفوظ بھی۔