عزیزی ریاض ندیم نیازی ادبی دنیا کا ایک معتبر، جانا پہچانا اور ایک حوالے سے معقول حد تک سینئر نام ہے۔
یہ اور بات ہے کہ صُورت سے وہ اب بھی ویسا ہی شرمیلا اور لڑکا سا نظر آتا ہے جیسا تین چار دہائیاں قبل ہوا کرتا تھا، جب اُس سے پہلی بارسبی(بلوچستان) کے سالانہ مشاعرے کے حوالے سے ملاقات ہوئی تھی، اُن دنوں بھی وہ تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ شوقیہ طور پرایک لائبریری چلا رہا تھا اور زبان و ادب سے غیرمعمولی دلچسپی کے باعث بذریعہ ڈاک ملک کے بیشتر لکھنے والوں سے رابطے میں تھا۔
سبّی جیسے دورافتادہ اور ادبی اعتبار سے بے آباد علاقے میں اس کی شخصیت اور جنون دونوں ہی ایک غیر معمولی واقعہ تھے لیکن جس پامردی اور استقلال سے اُس نے اپنے اس فطری ذوق کی پاسداری اور آبیاری کی وہ بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں کہ اپنے محدود وسائل اور خاندانی ذمے داریوں کے باوجود وہ ملک بھر میں ہونے والی کسی بھی ادبی کاروائی یا کانفرنس میں شرکت کی بھرپور اور کامیاب کوشش کرتا تھا اور ہے پھر یوں ہوا کہ اُس نے نعت کے میدان سے ایک ایسا تعلق خاطر پیدا کرلیا کہ رفتہ رفتہ یہی اس کی پہچان اور سرمایہ، افتخار بن گیا، اُسکی یہ کتاب "چمن زارِ حمدو نعت" کئی اعتبار سے خصوصی توجہ کی حامل ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر سال رمضان مبارک کے دنوں میں میں ادب میں دینی رجحانات، موضوعات اور کتابیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھوں کہ عمومی ماحول بھی اس کا متقاضی ہوتا ہے تو اس بار اس سلسلے کا آغاز ریاض ندیم نیازی کے اسی مجموعہ حمدونعت سے کرتے ہیں جس میں اس نے اہتمام کے ساتھ ایک ہی بحر اور ردیف قافیے میں نہ صرف دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ انھیں کتاب میں بھی آمنے سامنے شایع کیا ہے اور دونوں میں اشعار کی تعداد بھی ایک ہی رکھنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ چودہ صدیوں میں کرہ ارض پر مسلمان دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ رہے ہیں جونہ صرف پانچوں براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ اُن زبانوں کی تعداد بھی سیکڑوں کو چُھوتی ہے جو اس دین کے ماننے و الے بولتے اور لکھتے ہیں، یہ اور بات کہ عربی، فارسی، ترکی اور اُردو بولنے والوں کی تعداد نمایاں طور پر باقیوں سے زیادہ ہے ان تمام زبانوں میں بلکہ کچھ اور زبانوں میں بھی حمد یہ اور نعتیہ ادب لکھا گیا ہے اور تاریخ کے ہر دور میں اہلِ ایمان نے اپنے رب اور پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدؐ کی بارگاہِ اقدس میں اپنے نذرانہ ہائے عقیدت و محبت ایک سے ایک نئے اور دلکش انداز میں پیش کیے ہیں اور یہ توفیق مدینہ منورہ شیراز، بغداد، قرطبہ، دلی، اور لاہور جیسے بڑے مراکز کے ساتھ ساتھ سبی بلوچستان جیسے دُور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں رہنے والے ریاض ندیم نیازی کو بھی یکساں طور پر عطا ہوئی ہے کہ وہ ان درباروں میں اپنے اپنے سلام اور نذرانہ، عقیدت پیش کرسکیں۔
ریاض ندیم نیازی کے اس کلام کا حقیقی اَجر تو اُسے کہیں اور سے ہی ملے گا مگر دنیاوی داد اور تحسین کی حد تک بھی اُس کے اس کام کو بہت سراہا گیا ہے اور اُس کو شاباش دینے والوں میں دورِ حاضر کے بہت بڑے بڑے نام شامل ہیں، وہ خوش بخت ہے کہ اُسے ادبی اظہار کے حوالے سے حمدو نعت کی اصناف میں پذیرائی ملی اور اس کی کوشش اور محنت کو اُس کی زندگی اور ماحول میں بھی سراہا گیا جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ اس کتاب کی سب سے منفرد خوبی ایک ہی بحر میں لکھی گئی۔
حمد اور نعت ہے جنھیں شایع بھی آمنے سامنے کیا گیا ہے تو اب میں ان کے کچھ جستہ جستہ نمونے درج کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ آپ ریاض ندیم نیازی کی ادبی کاوش اور عقیدت کے پھولوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اس کے لیے دُعا کرسکیں۔ پہلا شعر حمد کا اور دوسرا "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"کے مصداق نعت کا ہے۔
دُوجا نہیں کوئی وہی تنہا ہے یقینا
جو سب کا ہے میرا بھی وہ مولا ہے یقینا
رحمت جہاں رہتی ہے وہ طیبہ ہے یقینا
جنت جسے کہتے ہیں مدینہ ہے یقینا
………
وہی ہے خالق وہی ہے، مالک اُسی کی قدرت ملے گی تم کو
جو دل میں رکھو گے اپنے رب کو تو اُس کی رحمت ملے گی تم کو
کرو گے آنکھوں سے جب نظارا تو دل کی رحمت ملے گی تم کو
مَلو گے خاکِ درِ نبی جب تو پھر بصیرت ملے گی تم کو
………
مہکیں مرے زبان و لب حمد و ثناء سے رات دن
میں یونہی لب کشا رہوں اُس کی رضا سے رات دن
لَو لگا رکھی ہے بس خیر اَنوری سے رات دن
کچھ نہ کچھ کہتا ہے دل اپنے خدا سے رات دن
………
اللہ کی قدرت نے بڑی دھوم مچادی
ہر ایک ہی نعمت نے بڑی دھوم مچادی
سرکارؐ کی دولت نے بڑی دھوم مچادی
اور نعت کی نسبت نے بڑی دھوم مچادی
………
یہ کاہکشاں، تارے سورج یہ ارض و سما سبحان اللہ
انسان کی خاطر ہے لوگو یہ رب کی عطا سبحان اللہ
وہ صبح ہوئی سُورج چمکا وہ دن نکلا، سبحان اللہ
طیبہ کے گلی کُوچے جاگے، آئی ہے صدا سبحان اللہ
………
دیکھا تری دنیا کوجو دانش کی نظر سے
جانا تجھے خورشید سے، تاروں سے، قمر سے
دیکھا ہے انھیں جس نے عقیدت کی نظر سے
وہ ہوگیا سرشار محبت کے اثر سے
………
وہ کیا ہے، وہ کون ہے، یہ جاننا محال ہے
کہ ابتدا سے آج تک سوال ہی سوال ہے
حضورؐ اذنِ حاضری کا آپ سے سوال ہے
کہ اذن کے بغیر میری حاضری محال ہے
جہاں میں ذرّے ذرّے سے عیاں ہے
ہر اک شے اس کی عظمت کا نشاں ہے
وہی میری محبت کا جہاں ہے
جو مجھ پر ہر طرح سے مہرباں ہے
اگرچہ یہ اشعار اوصافِ شعر کے اعتبار سے بھی مروّجہ معیارات پر پورے اُترتے ہیں لیکن میرے نزدیک ان کی اصل خوبی وہ روحانی عقیدت، سرشاری اور خیر طلبی ہے جس میں شاعر اپنی بات کرتے کرتے اس میں تمام قارئین اور سامعین کو بھی شامل کرلیتا ہے کہ حمد ونعت کا اصل مقام اورمدّعابھی یہی ہے۔