دریا کا ذکر یوں تو دنیا کی ہر زبان کے شعر و ادب میں ہزاروں لاکھوں مقامات پر اور ایک سے ایک نئے استعاراتی معنی میں مل جائے گا مگر پتہ نہیں کیوں میرا دھیان ہربار پہلی بار اسکول کے زمانے میں پڑھے ہوئے اس شعرپر آکر اَٹک جاتا ہے کہ
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
خارجی مظاہر کے حوالے سے بھی "دریا" کا شمار اُن چند تلازمات میں ہوتا ہے جن کا تعلق انسانی زندگی کے ہر دور سے کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتا ہے، دریا کے دونوں کناروں کا سمندر میں مدغم ہونے تک ہمیشہ متوازی چلتے رہنا، اس پرپُلوں کی تعمیر اور ایک کنارے سے دیکھا جانے والا دوسرے کنارے کا حیرت کدہ اور ایک دفعہ گزرے ہوئے پانی کا دوبارہ کبھی اس جگہ سے نہ گزرسکنا اپنی جگہ ایک منظر اور واقعہ تو ہے مگر اس کا ہر پہلو امیجز اور واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی ہے۔
اس کالم اور اس کے موضوع کا بنیادی محر ک ایک دوست کی بھیجی ہوئی چند لائنیں ہیں مگر ان کے اندر سے جو دریا نمودار ہُوا اُسے کناروں کے اندر رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے کہ ہر موج ایک نئی موج کو ساتھ لے کر آتی ہے لیکن ان کے ساتھ بہنے سے پہلے ہم ایک نظر اُس تحریر پر ڈالتے ہیں جس کا عنوان "سیکھنا ہو تو دریا سے سیکھو" رکھا گیا ہے اور دریا کے ہر رُوپ کے ساتھ اُس کی ایک توضیح اور تشریح بھی کی گئی ہے جس سے بوجوہ صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم صرف اس متن کو دیکھتے ہیں۔
1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے چلتے جاتے ہیں۔
2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آجائے تو آرام سے اپنا رُخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں۔
3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کرسکتے۔
4۔ دریاؤں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔
5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتاہے وہاں خاموشی اور سکون بھی زیادہ ہوتاہے۔
6۔ پتھر پھینکنے والوں سے اُلجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔
7۔ ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔
8۔ دریا ہمیشہ ایک راستے کی پیروی کرتا ہے وہ راستہ…جہاں سے گزر کر وہ سمندر تک پہنچ جائے۔
9۔ دریا یہ بھی جانتے ہیں کہ جلدی کی کوئی ضرورت نہیں۔
خوبی نمبر(3) یعنی گیلے ہوئے بغیر آپ دریا پار نہیں کرسکتے سے پھر مجھے اسکول کے زمانے کا ہی پڑھا ہوا ایک شعر یاد آیا جو آگے چل کر جبر و قدر کے فلسفے کی طرف نکلتا چلا گیا اور آج بھی فارسی میں ہونے کے باوجود بہت کثرت اور شوق سے دہرایا جاتا ہے۔
درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن، ہشیار باش
ذرا آگے بڑھے تو پتہ چلا کہ دنیا کی تمام قدیم اور بڑی انسانی آبادیاں اور دریا لازم و ملزوم تھے اور تمام پرانی مذہبی اور غیر مذہبی کتابوں میں ان دریاؤں کا ذکر افراط اور تکرار کے ساتھ ملتا ہے۔ جدید ادب میں بھی "نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر" اور Quiet Flows the Dawn وغیرہ میں ان کے نت نئے رُوپ نظر آتے ہیں۔ انسانی جدوجہد، آزمائشوں، ناکامیوں اور اَن دیکھی منزلوں کے سفر کے ذکر میں بھی کشتی اور دریا کا تلازمہ رُخ بدل بدل کر سامنے آتا ہے۔
تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کبھی یہ دریا "آگ کا دریا" بن جاتا ہے اور یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس میں ڈوب کر گزرا جائے اور کبھی یہ منیر نیازی کے لفظوں میں ایک بے معنی تسلسل کی شکل اختیار کر جاتاہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک د ریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
اور کبھی کبھی یہی دریا گزشتہ اور آیندہ کے درمیان اس طرح بہنا شروع کردیتا ہے کہ
آبِ روان کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
بہت سال گزرے میں نے بھی ایک نظم میں دریا سے کچھ باتیں کی تھیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کا تعلق"مجھ" سے زیادہ"آپ" سے ہے کہ ان کا تعلق ہم سب سے کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔
اس وقت جو دریا ہے
ہم تم بھی یہیں ہوں گے یہ پُل بھی یہیں ہوگا
اس وقت جو دریا ہے کل صبح نہیں ہوگا
آنسو کی طرح لمحے پلکوں پہ لرزتے ہیں
پھر وقت کے دریا میں اس طرح اُترتے ہیں
پہنائی صحرا میں جس طرح کوئی ذرّہ
بے نام و نشاں ہوجائے
ہونے کا گماں ہوجائے
یہ جمتا ہُوا آنسو یہ ٹھہرا ہوا لمحہ
اک جھیل سی ہے جس میں
اک وصلِ رمیدہ کے کچھ پھول مہکتے ہیں
کچھ عکس لرزتے ہیں
یہ عکس لرزنے دے، یہ پھول مہکنے دے
اس جھیل کے ساحل پر اس چاند کو چلنے دے
آنکھوں سے گرا آنسو ٹوٹا ہوا پرچم ہے
ساحل کے اُدھر ہر سُو اک ہجر کا موسم ہے
اس ہجر کے موسم میں
یہ جھیل کہیں ہوگی یہ چاند کہیں ہوگا
اس وقت جو دریا ہے کل صبح نہیں ہوگا