ابھی ابھی میں نے فیس بُک پر ایک اور خاتون کو آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ حکومت، پولیس، موٹروے انتظامیہ اور کچھ خاص افراد کو بُرا بھلا کہتے سُنا ہے۔
اُن کی زبان سے کچھ زیادہ سخت باتیں بھی نکلیں مگر جس پسِ منظر میں اور جس ذہنی کیفیت میں یہ جملے اد اکیے گئے اُس کی سچائی اور درد سے انکار ممکن نہیں۔ موٹر وے پر افسوسناک سانحے پر پوری قوم کا اضطراب اس بات پر شاہد ہے کہ اس طرح کے واقعات کا ہونا ہم سب کے لیے لمحہ فکر اور چشم کُشا ہے کہ اگر کسی ملک میں سڑکیں اور لوگوں کی عزت محفوظ نہ ہو تواس کی براہ راست ذمے داری تو قانون نافذ کرنے و الے اداروں پرہی ہوتی ہے مگر بالواسطہ طور پر پورا معاشرہ اور قوم بھی اس کی ذمے د ار ٹھہرتی ہے کہ ا س طرح کی بہیمانہ کارروائیوں کے ملزم بہرحال اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
سو دو چار لوگوں کو پھانسی، قید کی سزا یا جنسی اعضاء سے محروم کردینے سے وقتی طور پر ایک اطمینان تو حاصل ہوجائے گا مگر اصل مسئلہ اپنی جگہ پر رہے گا کہ جب تک ہم اپنے معاشرے سے ان وجوہات اور اسباب کودُور نہیں کریں گے یعنی کُتے کو کنوئیں سے نہیں نکالیں گے تو کنوئیں کا پانی صاف ہوگا اور نہ ہی ایسے لوگوں کی افزائش رکے گی۔
ان درندوں کا نام عابد ہو، شفقت ہو یا کچھ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، انھیں پکڑنے یا سرِ عام پھانسی دینے سے بھی ان کی تعداد میں شائد زیادہ کمی واقع نہ ہو، میرے نزدیک اس مسئلے کی موجودگی چند ضمنی وجوہات سے قطع نظر ان چار بنیادی عوامل کے گرد گھومتی ہے، سو اس کا مستقل حل اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگا، جب تک سب مل کر ان پر توجہ نہیں دیں گے اور ان چاروں مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوتوں کو صَرف کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے متعلقہ اداروں میں انقلابی تبدیلیاں اور اصلاحات نہیں لائیں گے۔
۱۔ جہالت۲۔ روزگار۳۔ پولیس۴۔ عدالتی نظام
ظاہر ہے ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں جس سے آپ پہلے سے آگاہ نہ ہوں یہ سب مسائل اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور ان کے بارے میں مختلف پلیٹ فارمز پر گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے لیکن ان کے باہمی تعلق پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے کہ کس طرح ایک کمزوری اور برائی دوسری کمزوری اور برائی کو تحفظ اور طاقت فراہم کرتی ہے۔
مثال کے طور پر جہالت یعنی تعلیم کی کمی کو ہی لیجیے جس میں اگر خواندگی اور روزافزوں آبادی کی کثرت کو بھی شامل کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام تر دعووں کے باوجود صرف تیس فی صد آبادی ایسی ہے جو پرائمری سے آگے جاتی ہے اور اس باقی کے سہتر فیصد میں پچاس فی صد لوگ ایسے ہیں جو اپنا نام بھی ٹھیک سے پڑھ لکھ نہیں سکتے۔
پڑھے لکھے بیکاروں اور بے روزگاروں کے مسائل اپنی جگہ لیکن چند فی صد ہنر مند اور چند فی صد غیرمربو ط اور منتشر ہوتے ہوئے زراعت کے شعبے سے متعلق نوجوانوں کو اگر نکال بھی دیا جائے تب بھی جہالت ان میں بطور قدرِ مشترک قائم رہتی ہے جس کی وجہ سے ان میں جرائم، نشے کی لَت اور کام چوری کے رجحانات بڑھتے رہتے ہیں مگر سب سے خطرناک وہ نوجوان طبقہ ہے جو جاہل بھی ہے اور بے روزگار بھی اور جس کے لیے جرائم اور قانون شکنی ایک ضرورت اور عادت کی شکل اختیار کرجاتے ہیں جن کی پرورش اور قانون سے حفاظت کی ذمے د اری بھی، یہ لوگ بہت پابندی اور تسلسل سے کرتے ہیں اور کیونکہ ان کے علاقوں کی پولیس بھی یا تو خود ان کی لگوائی ہوئی ہوتی ہے یا اُن کی طاقت کے سامنے مجبور ہوتی ہے اس لیے اسّی فی صد وارداتیں یا تو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتیں یا انھیں سمجھانے بجھانے کے انداز میں دھمکا کر خاموش کرادیا جاتا ہے اور جہاں تک باقی 20 فی صد جرائم کا تعلق ہے۔
وہ ہمارے عدالتی نظام بالخصوص نچلے درجے کی عدالتوں کے طریقِ کار کی بھینٹ چڑھ جاتاہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے سامنے موجود کیس کے گواہوں اور ملزموں کے پیچھے کچھ لوگوں کا زور وزَر کام کر رہا ہے اپنے فرائض کو ٹھیک طرح سے انجام نہیں دیتیں مثال کے طور پر اس کیس کے مرکزی مجرم عابد علی کو ہی لیجیے کہ وہ اس سے پہلے بھی ا س نوع کی بہت سی وارداتیں کرچکا تھا لیکن ہر بار کچھ پالنہار قسم کے بڑے لوگوں کی شہ، پولیس کی غفلت اور کام چوری اور عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ نڈر اور عادی ہوتا چلا گیا۔
میری ذاتی رائے میں اس ہمہ گیر انتشار کی ایک اور بڑی وجہ بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی یا عدمِ تسلسل بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے مندرجہ بالا چار میں سے کم از کم تین مسائل کی شدت کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ خواتین پر مظالم کے حوالے سے ہماری کینیڈا میں مقیم معروف شاعر ذکیہ غزل کے چند بہت خوبصورت اور اثر انگیز اشعار دیکھیے، اس کے بعد مَردوں کی نمائندگی کے لیے رحمن فارس کی ایک نظم بھی درج کروں گا کہ یہ مسئلہ پوری انسانیت کا ہے۔
میں دریا کو سمندر لکھ رہی ہوں
کہ چشمِ تر کا منظر لکھ رہی ہوں
سلگتی، چیختی لکڑی کے غم کو
میں اپنے آپ جل کر لکھ رہی ہوں
کسی بیٹی کی اُدھڑی اوڑھنی پر
ہوس کے سارے نشتر لکھ رہی ہوں
ہوئی جو بے اماں، بچوں کے آگے
میں اُس ماں کا مقدّر لکھ رہی ہوں
کسی کی آنکھ کی ویرانیوں میں
میں اپنا درد پڑھ کر لکھ رہی ہوں
کسی ویران رستے کے سفر میں
میں اک دل سوزمنظر لکھ رہی ہوں
غزل میں لکھ رہی ہوں خوفِ دنیا
یا اپنی ذات کا ڈر لکھ رہی ہوں
"تحریکِ ناموسِ عورت" کے حوالے سے عزیزی رحمن فارس کی یہ باتیں ایک درس ہیں جو عمر شیخ صاحب کی طرح متاثرہ خاتون کی غلطیوں، زندگی اور رشتوں کے بارے میں ہیں جن سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں، کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم متاثرہ لوگوں کے دُکھ میں تو اضافہ نہ کیجیے۔
نگینے لُٹ رہے ہیں اور ہم سب چُوں نہیں کرتے
رسولِ ہاشمیؐ کے اُمتّی تو یُوں نہیں کرتے
مسلماں تو کبھی معصومیت کاخُوں نہیں کرتے
ارے انساں ہو تو عورت کی عزّت کیوں نہیں کرتے
کہیں تو بات ہو راہوں میں لٹنے والی حُرمت کی
کوئی تحریک کیوں چلتی نہیں ناموسِ عورت کی
سیاست داں، مُلااور سپاہی سب کہاں گم ہیں
ریاست کے اربابِ شاہی سب کہاں گُم ہیں
جنھیں بخشی گئی تھی کج کلاہی سب کہاں گُم ہیں
نہیں مظلوم کی کوئی گواہی، سب کہاں گُم ہیں
امیرِ شہر نے اپنی زباں کیا خود ہی سی لی ہے
تو کیا آقاؤں کی مردانگی نے بھنگ پی لی ہے
چلو آقا تو چُپ ہیں پر عوام الناس تو بولیں
کروڑوں لوگ اپنی خامشی کا قُفل تو کھولیں
اکٹھے ہوکے اہلِ ظلم کو پاؤں تلے رولیں
نہتوں پر لگے داغوں کو اپنے خون سے دھولیں
سنو لوگو! فلک سے غیب کی آواز جاری ہے
کہ اب بھی ظلم پر جو چُپ رہا، کل اُس کی باری ہے