حقیقت اور اندازوں کا ایک طرح سے جنم جنم کا ساتھ ہے کہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود تو ہوتی ہے مگر اس کی نوعیت اور ظہور کے وقت کے بارے میں مختلف طرح کے اندازے اگر اس سے پہلے نہیں تو اس کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں اورپھر یکدم کوئی اندازہ حقیقت کا رُوپ دھار لیتاہے۔
مثال کے طور پر آج سے تین ماہ قبل جوبائیڈن کا امریکا کا چھیالیسواں صدر بننا ایک اندازہ تھا مگر آج یہ حقیقت بن کر سب کے سامنے ہے، اسی طرح ٹرمپ کا دوبارہ امریکا کا صدر بن سکنا اس دوران میں حقیقت سے بے حد قریب ہوتے ہوئے بھی اب ایک غلط اندازے کی شکل اختیار کرگیا ہے لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی جہاں پہ اندازے لگائے جارہے تھے کہ ٹرمپ اپنے اگلے دور حکومت میں امریکا کو کس طرف لے کر جائے گا اب یہ بحث چل رہی ہے کہ بائیڈن کی حکومت اُس کی کن پالیسیوں کو برقرار رکھے گی اور کن کو کُلی یا جزوی طور پر تبدیل کردے گی۔
ظاہر ہے ان اندازوں کے پیچھے بائیڈن اور ٹرمپ کی سوچ اور سیاسی مزاج کے ساتھ ساتھ اُن کی پارٹیوں کی تاریخ اور روایت کا مطالعہ بھی شامل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جب عملی طور پر کوئی اندازہ حقیقت کی شکل اختیارکرتا ہے توسامنے آنے والی حقیقت اس سے قدرے مختلف بھی ہو سکتی ہے کہ بعض اوقات کسی اندازے کا ایک حصہ تو حقیقت بن جاتاہے مگر اُس سے جُڑے ہوئے کئی حصے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں مثلاً جس طرح سے جوبائیڈن کی شخصیت اور اُس کی الیکشن میں کامیابی کا ٹرمپ نے مضحکہ اُڑایا تھا اور امریکا کی تاریخ میں پہلی بار کیپٹل ہِل پر مسلح افراد کی چڑھائی بھی کرا دی تھی اس کے پس منظر میں یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ بائیڈن اپنی صدارتی تقریر میں نہ صرف ان باتوں کا شدید نوٹس لے گابلکہ ٹرمپ اور اُس کے ساتھیوں کے مواخذے کے لیے بھی جارحانہ اقدام کرے گا مگر دنیا نے دیکھا کہ اُس نے پوری تقریر میں نہ تو ٹرمپ کا نام لیا اور نہ ہی اُس کی پالیسیوں پر ملک دشمنی کا الزام لگایا اس کی جگہ بہت خاموشی سے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن اُس نے اپنے کچھ اہم اعلانات کو امریکا کی نئی پالیسی کی شکل دے دی۔
اب ماہرینِ سیاسیات اُس کی اس نئی پالیسی کے حوالے سے کچھ اندازے لگا رہے ہیں جن کے حقیقت بننے کے چانسز بہت زیادہ ہیں مگر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ اندازے سِرے سے غلط ثابت ہوں اور کچھ کی حقیقی شکل وہ نہ ہو جو اس وقت تصور کی جا رہی ہے مثال کے طور پر جہاں تک پاکستان سے متعلق نئی امریکی حکومت کی متوقع پالیسیوں میں جوبائیڈن کی پاکستان کے معاملات میں تاریخی دلچسپی اوردوستانہ رویے کی بات کی جارہی ہے اُس میں امریکا چین تعلقات، بھارت امریکا دوستی، سی پیک کے بارے میں ٹرمپ حکومت کے رویے اور اسلامو فوبیا سمیت اسرائیل سے مختلف اسلامی ممالک کے تعلقات کی بات ہے دونوں حوالوں سے مختلف اندازے لگاتے رہے ہیں۔ اب ان میں کون حقیقت کا رُوپ دھارتا ہے اور کون نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
ڈیموکریٹس کے عمومی مزاج کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس کی امید بہت کم ہے کہ بائیڈن حکومت پاکستان کے حق میں زیادہ آگے تک جاسکے گی لیکن یہ اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقت بدلے یا نہ بدلے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے حقائق ضرور بدل جاتے ہیں اور یہ تبدیلی آیندہ لگائے جانے والے اندازوں کی شکل بھی تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ نظم "حقیقت اور اندازے" انھی چند سوالوں کے اندر سے پیدا ہوئی ہے اور اگرچہ ابھی یہ بقول علامہ اقبال "کچی سلائی"یعنی فائن ٹیوننگ سے پہلے کی سطح پر ہے یعنی ممکن ہے کچھ عرصہ بعد یہ میرے آیندہ شعری مجموعے میں آپ کی نظر سے گزرے تو اس کی شکل بدل چکی ہو لیکن یہ بھی ایک اندازہ ہے یعنی یہ موجودہ شکل میں بھی برقرار رہ سکتی ہے۔
کسی حقیقت کو پانے کا ایک ہی رستہ کب ہوتا ہے!
اِسی طرح سے اندازے بھی رُوپ بدلتے رہتے ہیں
کل تک ہم جن اندازوں کی بُھول بُھلیوں میں چکراتے
گرتے پڑتے، بھٹک رہے تھے
اکثر اب وہ سُورج جیسے روشن ہوکر
بالکل صاف نظر آتے ہیں
اور ہمارے بچے اُن کے پار اُتر کر
ایسے اُن کو دیکھ رہے ہیں
جیسے کوئی آئینے میں عکس کو دیکھے
ہر منظر ہے روشن روشن
اور اُس میں موجود تحیر جانے کب کا جا بھی چکا
ہر اُلجھن سُلجھا بھی چکا
اندازوں میں چُھپی ہوئی ہر ایک حقیقت
اُن کے لیے اب ایک کھلونے جیسی ہے جو
اُن کے اشاروں پر چلتا ہے
لیکن وہ یہ بُھول رہے ہیں
اندازوں کا ڈھیر جو اُن کے آگے پیچھے آج کھلونوں سا بکھرا ہے
یہ تو"ہمارے" اندازے تھے جن کی حقیقت "اُن " پہ کُھلی ہے
یعنی اب وہ ہم سے زیادہ جان چکے ہیں
لیکن اَب اس موڑ سے آگے اُن کا زمانہ جاری ہوگا
نئے سوالوں کے لشکر سے جو بھی رستہ کاٹے گا
پہلے سے وہ بھاری ہوگا
ہم پر تھا جو خوف مسلط اُن پر بھی وہ طاری ہوگا
اندازوں کی بُھول بُھلیاں پھر سے بنتی جائیں گی
دم دم بڑھتی جائیں گی
ہم اور ہم سے پہلوں جیسا اُن کو بھی یہ رَولیں گی
اور پھر اک دن اِسی طرح سے، ایک نئی منزل کی جانب
ایساہی اک اور دریچہ، اک دروازہ کھولیں گے
اندازوں اور کشفِ حقیقت کا یہ پرانا کھیل نجانے
کب سے ہے اور کب تک ہے!
اسی میں سب کو بہنا ہے یہ وقت کا دریا جب تک ہے
وقت کا یہ بے چہرہ دریا جس میں یکجا ہوجاتے ہیں
ماضی، حال اور مستقبل
اک آفاتی لہر میں ڈھل کر
ایک ہی لَے کے جادو میں اک ساتھ دھڑکنے لگ جاتے ہیں
ایک حقیقت سو اندازے، بے کل اور خوابیدہ دل