تقریباً چھ ماہ کی مسلسل خانہ نشینی کے بعد پہلی بار نسبتاً کُھلی فضا میں سفر اور دوستوں سے ملاقات کا موقع ملا ہے توعام طورپربہت سی نظر انداز ہوجانے والی چیزیں بھی اچھی اور غیر معمولی لگنے لگتی ہیں۔
اس سارے عرصے میں صرف ایک دن کے لیے اسلام آباد جانا ہوا تھا مگر وہ ایک بالکل الگ ماحول اور صورتِ حال تھی کہ وجہِ سفر پیارے، عزیز اور پرانے دوست انور مسعود کی اہلیہ اور میری بڑی بہنوں جیسی مشفق اور بہت ہی پیار کرنے والی بھابی(جو اب میری سمدھن بھی تھیں ) صدیقہ انور کی تعزیت تھی جو تیسرے روزے کی شام اللہ کو پیاری ہوگئیں لیکن اس بار نہ صرف پانچ دن کا قیام تھا بلکہ ہر روز کوئی نہ کوئی اہم مصروفیت تھی۔
آج بھی جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں کچھ گھنٹوں بعد مجھے پی ٹی وی کے بہترین میوزک پروڈیوسر اور دوست خواجہ نجم الحسن کے ایک پروگرام "یہ عالم شوق کا" کی ریکارڈنگ میں جانا ہے جو اتفاق سے میرے ہی بارے میں ہے۔
دو گھنٹوں پر مشتمل اس طویل پروگرام میں میری ادبی اور پی ٹی وی سے متعلق زندگی کے ساتھ ساتھ میرے لکھے ہوئے کچھ ایسے نغمے بھی پیش کیے جائیں گے جو نسبتاً زیادہ مشہور اور مقبول ہوئے لیکن اس سفر کے اس آخری پروگرام سے پہلے کیا کیا ہوا اُس کا ذکر بھی کئی حوالوں سے بہت اہم اور دلچسپ ہے چنانچہ میں پہلے پروگرام سے آغاز کرتا ہوں جو سینیٹ کے سابق اسپیکر اور انتہائی وضع دار اور سردو گرمِ زمانہ چشیدہ میاں رضا ربانی کی نئی کتاب Smile Snatchers کی تعارفی تقریب تھی جس میں مجھے مضمون پڑھنا تھا(گزشتہ کالم میں یہ مضمون "مسکراہٹیں چھیننے والے" کے عنوان سے شائع بھی ہو چکا ہے) اتفاق سے اس کے سامعین میں سب سے زیادہ تعداد حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے و الی مختلف شخصیات کی تھی جب کہ چھ میں سے تین مقررین کا بنیادی تعلق بھی سیاست ہی سے تھا۔ کتاب یوں تو ایک مختصر ناول یعنی ناولٹ کی شکل میں لکھی گئی ہے مگر اس کا موضوع اور دائرہ بہت وسیع ہے۔
سو ہوا یہ کہ تقریب کے بعد بھی بہت دیر تک احباب اس کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں اُن مسکراہٹیں چھیننے و الوں کی نشاندہی کرتے رہے جن میں سے بعض کا براہ راست اور بعض کا اشاراتی زبان میں اس کتاب میں ذکر کیا گیا تھا۔
مجھے ٹی وی اور فلم سے بطور مصنف قطع تعلق کیے ہوئے تقریباً پندرہ برس ہوچکے ہیں اور اس دوران میں باوجود دوستوں کے بے حد اصرار، دباؤ اور مباحثوں کے میں اپنے فیصلے پر قائم رہا مگر گزشتہ دو تین برسوں سے مجھے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ میرے اس مسلسل بائیکاٹ سے عملی طور پر صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے، اس تذبذب کی کیفیت میں اوپر تلے دو واقعات ایسے ہوئے اور کچھ ایسے لوگوں اور اداروں سے ملاقاتیں ہوئیں کہ میں نے ایک بار پھر سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا اُسے وہیں جوڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
ربِ کریم سے دُعا ہے کہ وہ اُن اُمیدوں میں برکت ڈالے جن کے حوالے سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے سو رضا ربانی صاحب کی تقریب کے بعد اگلے 24 گھنٹے اسی ضمن میں کی جانے والی مختلف میٹنگوں میں گزرے۔ اُمید ہے کہ آپ جلد میری لکھی ہوئی ایک فیچر فلم اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک ڈرامہ سیریز دیکھ سکیں گے۔ دونوں منصوبے اپنی اپنی جگہ پر اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح احباب کی دعائیں اور رب کریم کی رحمت ساتھ رہی تو انشاء اللہ آپ کو اچھی چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔
20 ستمبر یعنی ا توار کی رات نوسے گیارہ بجے تک ایک ورچوئل عالمی مشاعرے کی صدارت میں گزرے۔ اس کا اہتمام ماضی کی مشہور مقررہ اور شاعرہ اور ادبی تقریبات کی ماہر منتظم کشور غنی نے کیا تھا جن سے میری پہلی ملاقات کینیڈا کے پہلے سفر میں علی سردار جعفری، جمیل الدین عالی اور پروین شاکر کی معیت میں ایڈمنٹن میں ہونے والے ایک مشاعرے کے دوران ہوئی تھی جس کا اہتمام ڈاکٹر سلیم قریشی اور ریگولا قریشی کے ساتھ مل کر ہماری اسی دوست کشور غنی نے بہت کامیابی سے کیا تھا۔
اس بار انھوں نے کینیڈا کے مختلف شہروں کے ساتھ امریکا، برطانیہ، پاکستان اور بھارت سے گیارہ شاعروں کو نہ صرف آن لائن لے رکھا تھا بلکہ پوری اُردو دنیا میں دو ماہ سے اس کی تشہیر بھی کر رہی تھیں، آج کل تھوک کے حساب سے ہونے والے نام نہاد عالمی مشاعروں کی نسبت یہ مشاعرہ بہت مرتب، منظم اور اعلیٰ درجے کا تھا۔
اکادمی ادبیاتِ پاکستان کئی برسوں سے ایک طرح کے نیوٹرل گیئر میں چل رہی تھی اور اس کا شمار "ہے بھی اور نہیں بھی" ٹائپ اداروں میں ہونا شروع ہوگیا تھا اور اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ ڈاکٹر قاسم بگھیو کے جانے کے بعد ایک سال سے زیادہ عرصے تک اس کو کوئی باقاعدہ چیئرمین بھی نصیب نہیں ہوا اس کے نئے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک سے میری پہلی باقاعدہ اور بالمشافہ ملاقات تو گزشتہ روز ہوئی لیکن اُن کے نام، مقام اور متحرک شخصیت سے میرا تعارف خاصاپرانا ہے۔
بالخصوص خیرپور یونیورسٹی میں اُن کی پرووائس چانسلری کے دنوں میں جو بین الاقوامی سطح کی تقریبات ہوئیں، وہ بڑے شہروں کے بہت بڑے بڑے اداروں کے لیے بھی ایک روشن مثال کی طرح ہیں۔ اتفاق سے اُن کی اکادمی کے چیئرمین کے طور پر تقرری کو رونا کے عروج کے ہنگام میں ہوئی جب گھروں سے باہر کے تمام رابطے تقریباً مفلوج تھے اور سرکاری اور نیم سرکاری ادارے تو "اشد ضروری" کاموں سے قطع نظر ہاتھ پر ہاتھ ہی نہیں سر بھی رکھے بیٹھے تھے، اس تسلیم شدہ بے عملی کے دور میں انھوں نے جس طرح سے اس نیم مردہ ادارے کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الامکان متحرک بھی رکھا وہ یقیناً لائقِ تحسین ہے اور اُمید کی جانی چاہیئے کہ بہتر صورتِ حال میں وہ اور زیادہ بہتر انداز میں اس اکادمی کے قیام کی اصل رُوح اور مقصد کو آگے بڑھائیں گے۔
کورونا کے بعد یا اس کی تباہ کاریوں میں واضح کمی کے بعد یہ پہلی تقریب تھی جو ٹیکنالوجی کی مدد کے بجائے اپنے اصل یعنی جسمانی موجودگی کے انداز میں ترتیب دی گئی تھی جس میں کسی لکھنے والے کے ساتھ اکادمی کے ہال میں ہی ایک بھرپور ملاقات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بار یہ عزت مجھے دی گئی۔
انور مسعود اور ڈاکٹر فتح محمد ملک جیسے سینئرز کے ساتھ ساتھ بہت سے سینئر اور جونیئر ہم عصر لکھاری بھی تشریف لائے اور ادب سے محبت اور دلچسپی رکھنے و الوں کی بھی ایک معقول تعداد نے شرکت فرمائی۔ میری زندگی، تحریروں ادبی رویوں، نظریات اور عالمی ادبی صورتِ حال کے حوالے سے سوال و جواب کا سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ وقت لے گیا مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ادب سے سنجیدہ اور گہرا تعلق رکھنے والے موجود بھی ہیں اور متحرک بھی اور یہ کہ یہ سب لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر آج بھی ایک دوسرے کی بات کھلے دل سے سنتے اور سمجھتے ہیں۔