یوں تو کلچر کی نوعیت، ساخت، تاریخ اور اجزائے ترکیبی پر صدیوں سے ہر معاشرے میں بحث جاری ہے اور ابھی تک اس کی کوئی واضح، جامع اور وسیع البنیاد تعریف متعین بھی نہیں ہوسکی لیکن جو کچھ گزشتہ دنوں ہماری قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ہوا، اُسے ہمارے قومی کلچر کا نمایندہ تو کیا دُور کا استعاراکہنا بھی بہت مشکل ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کلچر اس طرح کے مظاہروں کو اپنے حصے کے طور پر قبول نہیں کرسکتا۔
اس میں شک نہیں کہ اشرافیہ کے اجلاسوں میں ہنگامے، شور شرابے یہاں تک کہ قتل و غارت کی تاریخ بھی جولیس سیزر، بروٹس اور سلطنت روم کے دنوں سے چلتی آرہی ہے لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس دوران میں دیگر اخلاقی فلسفوں سے قطع نظر دو بڑے آسمانی مذاہب یعنی عیسائیت اور اسلام بھی آئے اور دنیا علم و ادب، تعلیم، تہذیب اور اخلاقیات کے حوالے سے بھی کئی انقلابات سے گزری ہے اور یوں لگتا تھا جیسے پرنٹنگ پریس کی ایجاد، صنعتی انقلاب، نو آبادیاتی دور، تباہ کن جنگوں اور آسمانی آفات کے بعد دنیا نے مل کر جینا اور ایک دوسرے کے احترام اور باہمی گفتگو کا سلیقہ سیکھ لیا ہے۔
ساڑھے سات ارب کی انسانی آبادی اور تقریباً دو سو ممالک پر مشتمل اس منظر نامے میں اِکا دُکا جہالت اور جارحیت پر مبنی سین تماشا ئیوں کی نظروں سے گزرتے بھی رہتے ہیں مگر جس بد تمیزی، بے حیائی اور بدنظمی کا مظاہرہ ہمارے منتخب قومی نمایندوں نے پیش کیا ہے، اُس پر سوائے ماتم کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے اور خود میں گزشتہ اتوار کے کالم میں ڈاکٹر فردوس اعوان اور قادر مندوخیل صاحب کی ویڈیو کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ آخر اس طرح کے غیرمہذب ردّعمل کی حد کہاں ہوگی؟
اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ میرے اس "معصومانہ" سوال کا جواب دینے کے لیے پوری قومی اسمبلی کے ممبران یک دل اور یک جان ہوکر ہلڑ بازی کا ایسا شرمناک مظاہرہ کریں گے جس کی توقع شائد تھڑے بازوں سے بھی نہ کی جاسکتی ہو، میرے پاس اس کی مزمت کرنے کے لیے تو کچھ مختلف یا اضافی الفاط نہیں ہیں مگر ایک بات جس کا اس طوفانِ بدتمیزی میں بہت زیادہ اور خوامخواہ تذکرہ کیا گیا، وہ اس کا تعلق کلچر سے جوڑنا تھا اور وہ بھی قومی نہیں بلکہ ایک صوبے کے کلچر سے! اور وہ بھی ایک سینئر پارلیمنٹرین روحیل اصغر کی ایک ایسے بیان کے بنیاد پر جس میں انھوں نے ایک لفظ کو (میرے نزدیک نادانستہ طور پر)غلط استعمال کیا اور پھر تنقید سے گھبراکراپنی غلطی یا غلط فہمی کی اصلاح کے، ضد اور جوابی حملوں پر اُتر آئے ہیں۔ میرے خیال میں وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہم پنجابی لوگ فطری طورپر قدرے گرم مزاج اور جلد باز ہوتے ہیں اور اسی رَو میں بعض اوقات گالی دینے یا گالی کا جواب گالی سے دینے کی نوبت آجاتی ہے جب کہ ہماری مراد گالی میں استعمال شدہ الفاظ کے لغوی معنی سے کم اور ایک فوری اظہار ِ ناراضی سے زیادہ ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شائد گالی کو اپنے کلچر کا حصہ قرار دینے سے اُ ن کی مراد وہ نہیں تھی جو لی گئی، اس لیے انھیں یہ کہہ کر دیوار سے لگا دینا بھی بہت زیادہ مناسب نہیں کہ پنجاب کا کلچر تو صرف عظیم صوفیا کرام کی شاعری اور اُن کے اخلاقی تصورات میں ہی ملتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں ایسے عوامی ردّعمل گفتار کے حصے کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے گالیوں سے شروع ہوتے یا ان پر ختم ہوتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی بات اگر کسی فلسفی، روحانی بزرگ، ا ستاد یا دانشور نے کہی ہوتی تو اس پر بحث یا ردّعمل کی گنجائش نکل سکتی تھی مگرروحیل اصغر کسی بھی حوالے سے اس صف میں نہیں آتے سو اُن کے بیان کو رواروی میں کہی ہوئی ایک غلط اور مہمل بات تک ہی محدود رکھنا چاہیے کہ ایک تو وہ خود من موجی قسم کے آدمی ہیں اور دوسرے اُس وقت پورا ایوان بھی ایک مچھلی بازار بنا ہوا تھا اور بڑے بڑے پی ایچ ڈی دیارِ غیر سے ڈگری یافتہ اور عام زندگی میں بہت مہذب دکھائی دینے والے لوگ بھی ہر طرف سے نہ صرف گھٹیا مغلّضات کا کھلے عام استعمال کررہے تھے بلکہ ان میں سے بیشتر کی باڈی لینگوئج بھی آوارہ لڑکوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی، سو قوم اور ووٹرز کو ان سب کے بارے میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ کیا اسی طرح کے لوگ اُن کے حقو ق کی جنگ سلیقے سے لڑسکتے ہیں جنھیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔
میں اس بات سے بہت حد تک متفق ہوں کہ اس کی ذمے داری اُن سے زیادہ اُن کی پارٹیوں کے سربراہوں اور تنظیمی کمیٹیوں پر جاتی ہے کہ جو نہ اپنی اصلاح کرتے ہیں اور نہ اپنے ساتھیوں کو Behave کرنا سکھاتے ہیں۔ یہ کہنا کہ گزشتہ بیس برس سے بجٹ تقریر کے دوران حزبِ اختلاف کا شور شرابا چونکہ ایک روائت بن چکا ہے، اس لیے جائز ہے، انتہائی غلط اور بے ہودہ دلیل ہے۔
بجٹ تقریر کو نہ سننا اور اس کے دوران مسلسل شور شرابہ کرنا ہو قائد حزب اختلاف کی تقریر کا بائیکاٹ اور اس کے دوران بجٹ کی کاپیاں اُٹھا اُٹھا کر ایک دوسرے پر پھینکنا دونوں ہی عمل انتہائی افسوسناک ہیں جب کہ نہ صرف یہ آیندہ پورے ایک برس کی قومی ترقی اور معاشی اہداف کی ترجمان ہیں بلکہ اس کے صفحات میں قرآنی آیات اور اسمائے الٰہی بھی درج ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک کرسچین دوست نے بڑی درد مندی سے یہ تلخ سوال اُٹھایا ہے کہ اگر کسی مسیحی یا غیر مسلم سے نادانستگی میں بھی رب پاک کے نام کا حامل کوئی کاغذ یا اخبار گرجائے تو اس پر توہینِ کا مقدمہ درج کرادیا جاتا ہے، کیا کوئی ان لوگوں پر بھی یہ مقدمہ دائر کرے گا جو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کررہے تھے؟ بات اس سوال سے شروع ہوئی تھی کہ کیا یہی ہماراکلچر ہے؟
جس کے بارے میں برادرم انور مسعود کا کہنا ہے کہ اگر اس کلچر کا پہلا۔ ہٹا دیا جائے تو باقی "لچر"رہ جاتا ہے تو لگتا یہی ہے کہ ہمارے قومی نمایندے بھی کلچر کے۔ سے کوئی بہت زیادہ رغبت نہیں رکھتے اور ان کی ساری توجہ اس لچر پن پر رہتی ہے جو اپنی جگہ سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے اصل رنگ دکھاتا ہے۔ انگلینڈ کے ہائوس آف کامنزمیں آپ کو شائد ایک بھی ایسا ممبرنہ مل سکے جس نے اپنا سیاسی سفر گلی محلے اور انسانوں کے دکھ اور مسائل کے حل میں شرکت سے شروع نہ کیا ہوجب کہ ہماری اسمبلیوں میں شائد ہی کوئی اس شرط پر پورااُترتا ہو۔
مہذب ممالک کی اسمبلیوں میں حزبِ مخالف کے پاس ایک مکمل متبادل بجٹ ہوتا ہے اور وہ اس کے دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں سرکاری مجوزہ بجٹ میں ایسی تبدلیاں کراتی ہیں جو عوام کے حق میں ہوں مگر ہمارے یہاں اعتراض برائے اعتراض کا رواج اس قدرعام ہے کہ عوام کی فلاح کے نام پر ہر کوئی نمبر ٹانکنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں بجٹ اور حکومت کی پالیسی کی خامیاں اپنی جگہ پر موجود اور قائم رہتی ہیں اور یار لوگ ایک طرح کی خودکلامی کرنے کے بعد اپنی اس ذمے داری سے فارغ ہوجاتے ہی جس کے لیے انھیں یہاں بھیجا گیا تھا۔
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں