جس طرح کووڈ 19نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، اُس کی وضاحت کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی کہ اب یہ ہر دوسرے گھر کی کہانی بنتی جارہی ہے۔
پاکستان سمیت کچھ ایشیائی ممالک میں نہ صرف یہ قدرے دیر سے آیا بلکہ ابتدا میں اس کی رفتار میں وہ تیزی اور تباہ کاری بھی کم کم تھی جس سے کم و بیش باقی کی ساری دنیا گزر رہی تھی اور یہ واہمہ بھی ایک اصول کی جگہ لیتا جا رہا تھا کہ نہ صرف ہمارے علاقوں میں اس کی شکل مختلف ہے بلکہ ہمارے لوگوں کی قوتِ مدافعت بھی نسبتاً زیادہ ہے، گزشتہ ایک مہینے سے اور بہت سے تصورات کی طرح یہ تجزیہ بھی ریت کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس وقت یہ وائرس وطنِ عزیز میں اس بُری طرح سے پھیل رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
ایسا کیوں اور کیسے ہو رہا ہے اور ہمیں اس کے سدّباب کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے اس کے بارے میں ہر طرف سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے لیکن فی الوقت اس کا جو پہلو ہمارے سامنے ہے وہ اپنے اپنے شعبے کے بہت سے نامورلوگوں کی اُوپر تلے رحلت ہے جن میں سے زیادہ تر اس وبا کا شکار ہوئے ہیں، صرف شعروادب اور دیگر فنونِ لطیفہ سے وابستہ ان پردہ کر جانے والوں کی فہرست کچھ اس طرح سے ہے اور واضح رہے کہ یہ سب کے سب گزشتہ ایک ہفتے کے دوران رخصت ہوئے ہیں۔
صبیحہ خانم، گلزار زتشی دہلوی، سرور جاوید، محمد خالد، مظہر محمود شیرانی، اسحاق نور، شوکت مغل، تاج بلوچ، مجیب پروانہ، رب نواز مسکین، ممکن ہے یہ فہرست مکمل نہ ہو کہ ان سے کئی قدرے کم معروف لوگوں کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر خبریں لگی ہیں لیکن تصدیق اور معلومات کی کمی کی وجہ سے فی الوقت اُن کے ذکر سے گریز کیا جارہا ہے۔
غالب نے کسی خط میں وبا سے مرنے والوں کی کثرت کو مرگ انبوہ سے تعبیر کیا تھا۔ اُس زمانے کے ہنرمندوں سے تو شائد آج کے قارئین زیادہ آشنا نہ ہوں مگر اس وقت ہم جس صفِ ماتم کا ذکر کر رہے ہیں ان کے کمالات تو کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ ان میں سے تقریباً ہر ایک کم از کم ایک پورے اور باقاعدہ کالم کا تو ضرور حق دار تھا مگر اب مجبوری ہے کہ تعزیت کے یہ پھول ہمیں کسی ایک قبر پر نہیں بلکہ قبرستان پر چڑھانے پڑ رہے ہیں۔
صبیحہ خانم پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اُن چند ناموں میں سے ایک ہیں جو ہر اعتبار سے سنہری حرفوں میں لکھنے کے قابل ہے بغیر کسی اُستاد اور کسی قسم کی باقاعدہ تربیت کے اپنی فطری صلاحیت کی بنیاد پر جس طرح سے اس خاتون نے تقریباً دو دہائیوں تک بطور ہیروئن فلم انڈسٹری اور ناظرین کے دلوں پر راج کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تحقیق کے شعبے کے ایک بہت ہی اہم نام برادرم عقیل عباس جعفری نے آج گفتگو کے دوران مجھے بتایا کہ صبیحہ خانم نے 1950ء میں اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا اور اگرچہ اب وہ تقریباً تیس برس سے تقریباً گمنامی کی زندگی گزار رہی تھیں مگر 2016ء میں بننے والی ایک فلم میں بھی انھوں نے ایکٹنگ کے جوہر دکھائے ہیں، سو اس اعتبار سے اُن کا فنی کیرئیر 66برس پر پھیلا ہوا ہے جو شائد اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ ہو۔
اُن سے ہونے والی ملاقاتوں میں سے ایک مجھے اب تک یاد ہے کہ اطہر شاہ خاں اور خوش بخت شجاعت کے ایک پروگرام (جس کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا) کے سلسلے میں مجھے اُن کے ساتھ لاہور سے کراچی تک آنے جانے اور ایک ہی ہوٹل میں قیام کا موقع ملا جس کے دوران انھوں نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ ایسی دلچسپ اور بے حد مختلف باتیں بتائیں جن پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
گلزار دہلوی کا پورا نام تو بہت لمبا ہے مگر وہ خود اپنے چھوٹے سے قد اور مخصوص تیزی آمیز لہجے کے ساتھ کسی بھی مشاعرے کا ایک ا ہم اور لازمی حصہ سمجھے جاتے تھے، ا س پر مستزاد اُن کی شیروانی، ٹوپی اور ایک ہمہ وقتی ارتعاش میں مبتلا اور متحرک وجود تھے کہ جن کی وجہ سے بلاشبہ وہ اُن پُرکھوں کی زندہ نشانی لگتے تھے جن کا ذکر بزرگوں کی گفتگو میں تو ملتا ہے مگر عملی شکل میں اب وہ کہیں نظر نہیں آتے۔
مجھے اُن کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا ہے اور ایک بار مسقط کے کسی مشاعرے میں ہم نے کمرہ بھی شیئر کیا تھا، وہ اپنی ذات میں کسی انجمن سے کم نہیں تھے، اُن کی اُردو ایسی بامحاورہ اور شائستہ تھی کہ اُن سے گفتگو صرف اس وجہ سے بھی ایک خاصے کی چیز بن جاتی تھی، اُردو سے اُن کی محبت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد بھارت میں اُردو دشمنی کی جو لہر چلی اور تقریباً بیس برس تک چلتی رہی، اس میں شاعروں میں سے صرف وہ اورجگن ناتھ آزاد ہی دو ایسے نام تھے جنہوں نے ہندو ہونے کے باوجود اُردو کی محبت کے پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھا، سکھوں میں یہ اعزاز کنور مہندر سنگھ بیدی کو حاصل ہے۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کاحال بھی ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم جیسا ہی تھا کہ بے شمار ذاتی کمالات اور تحقیقات کے باوجود بھی اُن کا نسبی تعارف اُن کا پہلا تعارف بن جاتا تھا کہ وہ شاعرِ رومان اختر شیرانی کے بیٹے اور اُردو کے عظیم محقق حافظ محمود شیرانی کے پوتے تھے۔ میری اُن سے پہلی ملاقات 1968ء میں بہت ہی عزیز دوست شمیم اختر سیفی مرحوم کے توسط سے ہوئی تھی جو سول سروس میں جانے سے قبل گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں فلسفہ پڑھا رہا تھا اور شیرانی صاحب وہاں اُردو کے اُستاد تھے اُس کے بعد اُن سے زیادہ تر ملاقاتیں احمد ندیم قاسمی صاحب کے ’فنون، والے دفتر میں ہوئیں۔
دو تین برس قبل جب انھیں مجلسِ فروغ اُردو ادب کا عالمی ایوارڈ ملا تو اُن سے ہم ایوارڈی کا ایک نیا رشتہ بھی قائم ہوگیا، وہ دھیمے مزاج کے غیر نہیں تو کم مجلسی انسان ضرور تھے اور اپنے مطلب کے لوگوں میں خوب کُھل کر ہنستے بولتے بھی تھے۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو تدریس کو پیشے کے علاوہ ایک مِشن بھی سمجھتے تھے اور شاگردوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ تربیت بھی دیتے تھے جو آج کل نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتی جارہی ہے۔
سرور جاوید مرحوم وفاداری بشرطِ استواری کی ایک زندہ مثال تھے۔ سوشلزم، انسانی حقوق کی پاسداری، ترقی پسند اور عوامی حقوق کے لیے جدوجہد اُن کا اوڑھنا بچھونا تھے اور حالات کسی بھی طرح کے کیوں نہ ہوں وہ اپنے نظریات کے ساتھ ہی زندہ رہے، اُن سے ملاقاتیں تو بہت رہیں لیکن بوجوہ تفصیل سے بات کرنے کا موقع کم کم ہی ملا کہ عام طور پر کسی ادبی تقریب یا کانفرنس وغیرہ ہی میں سامنا ہوتا تھا لیکن اپنے خیالات کی استقامت اور نظریات سے کمٹ منٹ کے باعث ہر محفل میں اُن کی موجودگی نہ صرف محسوس ہوتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ایک احترام کا تقاضا بھی کرتی تھی۔
اسحاق نور اور اُن کی دست اور ستارہ شناسی کی مہارت کے بارے میں یوں تو بہت سی کہانیاں مشہور ہیں مگرمیرے نزدیک سب سے اہم حوالہ برادر عزیز عرفان جاوید کا ہے جو مرحوم کو بہت قریب سے جانتے تھے، یہ دونوں علوم ایسے ہیں جن کے بارے میں بے حد متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ علامہ صاحب کی یہ بات اپنی جگہ پر میرے دل کو بھی لگتی ہے کہ "ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا" مگر یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ستارہ شناس لوگوں اور اُن کے کمالات کا ذکر ہمیشہ بہت نمایاں رہا ہے اور بلاشبہ اسحاق نور ہمارے دور میں اس فن کے اُستادوں میں سے ایک تھے۔
اُردو کے میرے ایم اے او کالج کے رفیق اور باکمال شاعر محمد خالد کے علاوہ پاکستان کی دیگر قومی زبانوں کے نامور لکھاریوں میں سے شوکت مغل (سرائیکی)، تاج بلوچ (سندھی)، عطا محمد بھمبھرو (سندھی) اور رب نواز مسکین (پنجابی اور سرائیکی ) بھی انھی دنوں میں اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے ہیں۔ ربِ کریم ان سب مرحومین پر اپنی رحمت کا سایا دراز رکھے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر کسی روشن ستارے سے کم نہ تھا۔