آپ اسے کوئی بھی نام دے لیں مگر امر واقعہ یہی ہے کہ میں اب بھی بیرون ملک سفر کے لیے جہاں تک ممکن ہو پی آئی اے کا ہی انتخاب کرتا ہوں، اس وقت اس ایئر لائن کی جو حالت ہو گئی ہے اس کے پیش نظر اس بات میں حقیقت کم اور جذباتیت زیادہ نظر آتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ یہاں :
ہم نے مانا کہ معتبر ہے دماغ
دل نہ مانے اگر تو کیا کیجے
کی سی صورت حال ہے کہ ہماری نسل نے اس ایئرلائن کا وہ روپ اور زمانہ بھی دیکھا ہے جب ساری دنیا اس کی طرف تعریف اور حسرت کی نظروں سے دیکھا کرتی تھی اور اس کا شمار ہر اعتبار سے اپنے وقت کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں ہوتا تھا اس کے پائلٹس، عملہ، فضائی میزبان، ماحول اور سروس ایک سے بڑھ کر ایک تھے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود یہ ڈومیسٹک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پروازوں کے اعتبار سے بھی دنیا کے بیشتر بڑے ممالک سے نہ صرف رشتہ آرا تھی بلکہ پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے لوگ بھی اس میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور اس سے متعلق لوگوں کی پیشہ ورانہ مہارت کا کمال یہ تھا کہ آج کی چند بہترین اور معروف ترین ایئرلائنز کی تعمیر و تشکیل میں یہی لوگ پیش پیش تھے۔
ہوا یوں کہ UKIM یعنی یونائیٹڈ کنگڈم اسلامک مشن نے اپنی فنڈ ریزنگ کے حوالے سے مشاعروں کا ایک سلسلہ ترتیب دیا جس میں پاکستان سے انور مسعود، رحمن فارس اور مجھے شرکت کی دعوت دی گئی جب کہ بھارت سے نوجوان اور پرجوش مزاحمتی اور مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والے شاعر عمران پرتاب گڑھی کو مدعو کیا گیا تھا۔
انور مسعود نے امریکا سے آنا تھا جہاں وہ ان دنوں ایک مشاعرے کے سلسلے میں دورے پر تھے جب کہ رحمن فارس کی سرکار سے چھٹی کا مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ اسے چار اکتوبر کی صبح کی فلائٹ لینا پڑی اور یوں 3اکتوبر کی لاہور لندن فلائٹ PK757 میرے حصے میں آئی اور دراصل اسی فلائٹ کے لیے لاہور ایئرپورٹ کے ڈیپارچر لاؤنج میں فلائٹ کی روانگی کے انتظار میں ہی وہ سب باتیں میرے دھیان میں آئیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اگرچہ اس وقت یہ لاہور سے لندن جانے کے لیے بہترین فلائٹ ہے کہ نہ صرف یہ بغیر راستے میں کہیں رکے جاتی ہے بلکہ اس کی پرواز کا دورانیہ بھی نسبتاً کم اور کرایہ بھی بہت مناسب ہے حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود آدھے سے زیادہ جہاز خالی جا رہا تھا۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے سو اس کی تکرار سے بچتے ہوئے صرف یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں اس کے حالات کو سدھارنے اور اسے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے جو اقدام کیے گئے ہیں اور جن کی جزوی کامیابی کی کچھ اطلاعات بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔
ان کی عملی صورت حال کیا ہے اور مستقبل قریب میں ان سے کئی اچھی خبروں اور خوش آیند تبدیلیوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جہاز کے خوش اخلاق اور مستعد عملے سے اس مسئلے پر گفتگو کے بعد جو باتیں سمجھ میں آئیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ جہاں تک کئی ایئر لائن کی مسافروں کے حوالے سے پرفارمنس کا تعلق ہے اس میں تو خاصی بہتری آئی ہے کہ اب پروازیں نہ صرف وقت کی پابندی کرتی ہیں بلکہ طیاروں کی کمی کے باوجود سارے سیکٹرز پر سروس باقاعدگی سے جاری ہے اور کچھ پرانے سیکٹرز کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دو نئے روٹ بھی اضافہ کیے گئے ہیں، کھانے اور صفائی کی صورت حال بھی بہتر ہوئی ہے جب کہ پائلٹس کی مہارت تو ہمیشہ سے مثالی رہی ہے جب ان سے اندرونی اور انتظامی مسائل کے علاوہ مسافروں کی کمی کی وجہ دریافت کی گئی تو مندرجہ ذیل باتیں سامنے آئیں۔
-1گزشتہ 20 برسوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث غیر ملکی مسافر نہ صرف کم ہوئے بلکہ بعض ایسے روٹس بھی سیاسی مصلحتوں کے باعث کچھ غیرملکی کمپنیوں کو دے دیے گئے جو سب سے زیادہ معروف اور منافع بخش تھے۔
-2ماضی قریب میں عالمی معیار کی سروس کے بعض تقاضوں کو اس بری طرح سے اور مسلسل نظر انداز کیا گیا کہ Credibility کے اعتبار سے اس کی شہرت اور نام کو کچھ ایسے دھچکے لگے جن کے منفی اثرات بہت ہمہ گیر اور دور رس ہیں۔
-3 اس وقت زیر استعمال طیاروں کی maintenance کا معیار انتہائی ناقابل اطمینان ہے کہ محاورے کے مطابق گنجی کیا نہائے اور کیا نچوڑے کی سی صورت حال ہے۔ طیاروں کی دیکھ بھال اور ضروری اور لازمی سروس اور مرمت وغیرہ کے لیے مطلوبہ وقت کا دسواں حصہ بھی نہیں ملتا کہ اس کے لیے جس متبادل اور بیک اپ سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس سرے سے موجود ہی نہیں اس لیے سارا زور انھیں چالو حالت میں رکھنے پر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات معمولی خرابیاں بھی بڑے مسائل کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔
اس صورت حال کی ایک عملی شکل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ تین برس میں مجھے پی آئی اے کے ذریعے امریکا، کینیڈا، برطانیہ، اسپین، ناروے، فرانس اور دبئی جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ شروع شروع میں بزنس کلاس کے ٹی وی مانیٹر اکا دکا اور اکانومی کے دس میں سے چار خراب ہوتے تھے اب صورت حال یہ ہے کہ پورے جہاز میں ایک بھی مانیٹر ایسا نہیں جس پرآپ سفر کے راستے کی تفصیل کے اعداد و شمار کے علاوہ کچھ بھی دیکھ یا سن سکتے ہوں۔ چار سے چودہ گھنٹوں کی طویل مسافت میں یہ کمی جس بری طرح سے کھٹکتی ہے اس کی کیفیت صرف محسوس کی جا سکتی ہے اور اس کی مبینہ وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ اس کے لیے پورے الیکٹرانک سسٹم کی اوور ہالنگ اور تبدیلی ضروری ہے جس کے لیے نہ وقت ہے اور نہ بجٹ۔
آٹھ گھنٹوں پر محیط PK757 کی اس پرواز کے دوران پی آئی اے کی بلندی اور پستی کی یہ کہانی ایک فلم کی طرح ذہن کی اسکرین پر چلتی رہی اور عین ممکن تھا کہ اس کا اثر مزید کچھ دیر قائم رہتا مگر اللہ بھلا کرے ہیتھرو ایئرپورٹ کی طوالت اور امیگریشن کے لیے لگی ہوئی طویل اور تھکا دینے والی قطاروں کا جن کی وجہ سے پتہ چلا کہ کس طرح ایک بڑی چوٹ چھوٹی چوٹوں کی تکلیف پر حاوی آجاتی ہے اور یہ کہ کیسے ہر رات کے بعد قدرت نے ایک صبح کا انتظام بھی کر رکھا ہے جو حوصلوں کو کبھی ایک خاص حد سے زیادہ ٹوٹنے نہیں دیتا، سو ہوا یوں کہ برادرم وقار احمد اور راجہ قیوم کی استقبالیہ مسکراہٹوں اور معانقوں نے چند ہی منٹوں میں سارے منظر اور ذہنی فضا کو بدل کر رکھ دیا اور یوں لگا جیسے یہ چھ ماہ کی نہیں چند گھنٹوں کی بات ہو جب میں پچھلی بار اس شہر میں آیا تھا، UKIM والوں نے اس بار اچھی بات یہ کی ہے کہ چھ پروگراموں کو سولہ دنوں میں پھیلا دیا ہے۔
سو امید ہے کہ اس بار گزشتہ چھ مشاعراتی دوروں کے مقابلے میں کھل کر سانس لینے، اس ملک کو تسلی سے دیکھنے اور احباب سے ملنے کا بھی معقول موقع مل سکے گا اور یوں اگلے چار پانچ کالمPK 757 سے واپسی کی فلائٹ PK758 کے درمیانی وقفے کی باتوں میں گزریں گے اور ہر جگہ آپ یعنی "چشم تماشا" کے قارئین بھی ساتھ ساتھ ہوں گے۔