یہ وہ دو عنوان ہیں جو "کورونا" میں زندگی گزارنے کے لیے شائد مرکزی استعاروں کی شکل اختیار کر گئے ہیں کہ جس سے بھی فون پر رابطہ ہو، یہ جملہ اپنے معنی سے ہی محروم ہوگیا ہے کہ "گھر پر ہو؟ ۔"
زیادہ بے تکلف دوست اس کے جواب میں جو باتیں کہتے ہیں اُن سے اور تو اور پیمرا کی آنکھیں بھی کھل سکتی ہیں، مارچ کے تیسرے ہفتے میں میں انڈس اسپتال کے ایک فنڈریزنگ پروگرام میں شرکت کے بعد ہیتھروائیرپورٹ کی ویرانی پر حیران ہوتا ہوا جب لندن سے لاہور پہنچا تو یوں لگا کہ یہ ویرانی بھی لندن کے کسٹم اور ہمارے پی آئی اے کی نظر اندازگی کے باعث کسی نہ کسی طرح ہمارے سامان میں چھپ کر ساتھ ہی چل آئی ہو کہ یہاں ایک پندرہ دن کا باقاعدہ لاک ڈائون ہمارا منتظر تھا جو محبوب کے وعدہ وصل کی طرح کسی نہ کسی بہانے آج یعنی 14جولائی تک شکلیں بدل بدل کر ہمارے چاروں طرف رواں دواں ہے۔
ابتدا میں اس سے اگرچہ سب کو ڈرایا جاتا تھا مگر زیادہ زور ساٹھ سال سے اوپر کے لوگوں پر تھا کہ یورپ اور امریکا میں اس کے بیشتر متاثرین میں مرحومین کی زیادہ تعداد انھی لوگوں کی تھی سو ہوا یہ کہ میری فیملی بالخصوص برخوردار علی ذی شان امجد نے میری نقل و حرکت پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کر دیں جن کی طرف اُس کی نوجوانی میں خود میرا بھی دھیان نہیں گیا تھا، تقریباً تین ماہ کی اس مسلسل خود گرفتاری کے بعد اب 15 جولائی کو پہلی بار اس قید میں نرمی کے کچھ آثار پیدا ہورہے ہیں کہ اسلام آباد میں بڑی بیٹی روشین عاقب کی طرف جانے کا پروگرام بن رہا ہے جس کا محرّک بچوں کی ضد سے زیادہ یہ احساس ہے کہ اس کورونا کی وجہ سے ہم برادرم انور مسعود کی بیگم صدیقہ انور کی آخری رسومات میں بھی شریک نہ ہوسکے جو میری عزیز بھابی ہونے کے ساتھ ساتھ روشین کی ساس بھی تھیں۔
ان تین مہینوں میں یہی کالم "چشم تماشا" ہفتے میں دوبار لکھنے، ٹی وی دیکھنے شاعری کرنے اور کتابیں پڑھنے کے علاوہ جس چیز میں سب سے زیادہ وقت گزرا وہ زو م سمیت دیگر ٹیکنالوجی کے حیرت کدوں کی معرفت دنیا بھر میں شعر و ادب کے حوالے سے آن لائن تقریبات اور مشاعرے رہے کہ بعض اوقات تو ایک دن میں دو دو تین تین بار اس تجربے سے گزرنا پڑا۔ اٹلس کے صفحات کے بعد پہلی بار ہم نے براعظموں، ملکوں، شہروں، سمندروں اور سب سے بڑھ کر انسانوں کو ایک دوسرے سے اسقدر قریب دیکھا کہ زمینی اور زمانی دونوں طرح کے فاصلے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
ابتدا اس کی دہلی(بھارت) میں عزیزی کنور رنجیت سنگھ چوہان کے آن لائن انٹرویو سے ہوئی اور اس کے بعد یہ سلسلہ اس وباء سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتا گیا۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، یو اے ای کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے برادرم ڈاکٹر یوسف خشک، عزیزی ڈاکٹر شیر علی اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈی جی فوزیہ سعید سے اسی زوم پر ادبی اور دفتری حوالے سے بات چیت رہی اور اس دوران میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی چند ٹی وی رائٹرز سے مستقبل کے پروگراموں کے بارے میں مشاورت کی جس کی زیادہ خوشی مجھے اس بات کی ہوئی کہ انھیں ہمارا ایک پرانا مگر خوب صورت باہمی رابطہ بہت اچھی طرح سے یاد تھا۔
میری مراد اُن کرکٹ میچوں سے ہے جو تقریباً نصف صدی قبل ہمیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھیلنے کا موقع ملا تھا، اسی ملاقات میں عزیزی شبلی فراز اور جنرل عاصم باجوہ سے بھی سلام دعا ہوئی۔ قرائن سے اندازہ ہوا کہ یہ سب دوست پی ٹی وی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے امکانات پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ دُعا ہے کہ یہ لوگ خرابی کی جڑ تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ایک ایساآپریشن بھی کرسکیں جو تمام فاسد مواد کو باہر نکال کے پی ٹی وی کے اُس چہرے کو بحال کرسکے جو ہم سب کے لیے سرمایہ مسرت و افتخار تھا۔
اس دوران میں امریکا سے برادرم علی عدنان نے (جو اپنے ادب کے کولمبس عقیل عباس جعفری کی طرح میوزک کے میدان میں غیر معمولی صفات کے حامل ہیں ) اپنے خزانے سے میرے لکھے اور مختلف گلوکاروں کے ستر اور اسیّ کی دہائی میں گائے ہوئے کچھ ایسے گیت ڈھونڈ کر مہیا کیے جن میں سے بیشتر اب شائد اُن اداروں کے پاس بھی محفوظ نہ ہوں جہاں سے یہ پہلی بار نشر، ریکارڈ یا ٹیلی کاسٹ ہوئے تھے، اُن کی اس سراغ رسانی سے شہ پاکر میں نے بھی یو ٹیوب کے سمندر میں غوطہ لگایا جہاں درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں کے حساب سے میرے ڈراموں، شاعری، گیتوں، انٹرویوز اور شوز کی ریکارڈنگز میری منتظر تھیں مگر اس کے باوجود کئی اہم سیریل اور انفرادی ڈرامے ابھی تک مکمل، اچھی اور کسی باقاعدہ شکل میں مہیا نہیں ہوسکے جی میں ہے کہ موجودہ ایم ڈی، پی ٹی وی ارشد خان سے (جو اچھے دوست بھی ہیں ) مستقبل میں تعاون کی بنیادی شر ط یہی رکھی جائے کہ وہ سب سے پہلے ہمارے بار بار چلائے جانے والے پروگراموں کے مطلوبہ واجبات (رائلٹی وغیرہ) کے ساتھ ہمارے تمام اہم پروگراموں کی ملکی اور معیاری کاپیاں کسی جدید شکل میں ہمیں مہیا کریں تاکہ نہ صرف ہم اپنے ریکارڈ کو مکمل اور با اعتبار کرسکیں بلکہ ان کے آیندہ استعمال کے لیے بھی کوئی ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جو انصاف پر مبنی ہو۔
اب ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اس رضا کارانہ نظر بندی یاخود گرفتاری پر ایک نظر ڈالی جائے تو کم از کم یہ سودا (انفرادی طور پر ہی سہی) کوئی گھاٹے کا نہیں رہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی زندگی بھی کورونا کے ہمہ گیر سائے کے تلے گزاری جائے، امید اور دعا کرنی چاہیے کہ یہ عذاب جلد از جلد ساری دنیا کے سر سے ٹل جائے کہ معاشی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی حوالے سے بھی اب بہت سے کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے۔
کہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر ہم چاہیں تو بُری سے بُری صورت حال میں بھی بہتری کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش اور استعمال کرسکتے ہیں۔ اِنشاء اللہ بہت جلد دنیا اپنی پہلی سی حالت پر نہ سہی مگر کسی نہ کسی حد تک معمول پر آجائے گی اور پھر یہ گھروں میں محصوری، نظر بندی اور مستقل قسم کی بے کاری بھی ایک گم گشتہ یاد کی صورت اختیار کرتی جائے گی کہ ازل سے یہی دستورحیات چلتا چلا آرہا ہے مگر میرا دل کہتا ہے کہ اس بار دنیا کو اپنی پرانی روش کے کچھ انسان دشمن فیصلے کسی نہ کسی حد تک ضرور تبدیل کرنے ہوں گے کہ اگر ہم نے اس کورونا سے بھی کچھ نہیں سیکھا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم سیکھنے کی صلاحیت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکے ہیں۔