Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ronaq Mela

Ronaq Mela

پنجابی زبان میں رونق میلہ اُسی روّیئے کو کہتے ہیں جو آج کل برادرانِ وطن نے سڑکوں پر اپنایا ہوا ہے۔ میں خود تو تقریباً دو ماہ سے گھر میں محصور ہوں اور اس دوران میں دو یا تین بار کچھ دیر کے لیے کسی بہت ضروری کام سے نکلا ہوں مگر یوں کہ ہر ممکنہ حفاظتی تدبیر کا اہتمام کیا جائے اور دھیان جلد از جلد گھر واپسی کی طرف رکھا جائے۔

یہ بات مانتے ہوئے کہ میں بوجوہ یہ اختیار کردہ نظر بندی نہ صرف افورڈ کر سکتا ہوں بلکہ میری فیملی کا دبائو بھی اس میں شامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں عام عوام کی اُن مشکلات سے بے خبر ہوں جو اس لاک ڈائون یا اس سے ملتی جلتی کیفیات میں اُن پر گزر رہی ہیں۔ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو چھوڑ کر تقریباً چھ کروڑ لوگ ہمارے معاشرے میں اپنے ا ور اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کی خاطر کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں۔ اب ان میں سے اگر ایک کروڑ صاحب حیثیت اور درمیانے درجے کے سفید پوش لوگوں کو نکال بھی لیا جائے تب بھی تقریباً پانچ کروڑ لوگ کورونا کی اس آفت میں بے روزگار ہو گئے ہیں۔

حکومت یا رفاعی ادارے جتنا بھی اچھا کام کر لیں مگر یہ ممکن نہیں کہ ان پانچ کروڑ لوگوں کو زیادہ عرصے تک تنخواہ اور مزدوری توکیا جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بھی سہولیات مہیاکی جا سکیں اور واضح رہے کہ ان میں سے ہر شخص کے ساتھ اوسطاً تین ایسے لوگ بھی نتھی ہیں جن کی دیکھ بھال، روزی روٹی اور نشوونما کا تعلق بھی اسی سے وابستہ ہے، ایسے میں لاک ڈائونزکو مرحلہ وار نرم کرنے اور مختلف کاروبار اور مارکیٹیں کھولنے کا فیصلہ ڈاکٹر اور صحت سے متعلق دیگر ماہرین کے خیال میں جتنا بھی غلط کیوں نہ ہو اس کا رسک جلد یا بدیر ہر حکومت کو لینا ہی پڑے گا یہاں تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر دو ماہ کی کم یا زیادہ پابندیاں اور میڈیا پر بتائی جانے والی حفاظتی تدابیر کی اس قدر زیادہ اور کھلم کھلا خلاف ورزی کسی بھی صورت جائز اور گوارا نہیں۔

عملی طور پر دیکھا جائے تو تقریباً 44% دیہات اور اُن کی آبادی پہلے ہی اس دائرے سے باہر ہیں کہ ان پابندیوں کا زیادہ تعلق بھیڑ باڑ اور ایسے میل جول سے ہے جس میں کورونا کا وائرس ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ گائوں کی زندگی کے مخصوص انداز کے باعث ان پابندیوں پر عمل کرنا نسبتاً آسان ہے سو ہم اپنی بات کو فی الوقت صرف شہروں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ مارکیٹیں اور بازار کھلتے ہی اتنے زیادہ لوگ بچوں اور عورتوں سمیت گھروں سے نکل آئے ہیں اور بازاروں میں اس قدر رَش ہو گیا ہے کہ سماجی یا جسمانی فاصلہ تو ایک طرف رہا لوگوں کو سانس لینے میں بھی دشواری ہونے لگی ہے، مانا کہ عید کا ہنگامہ ہے اور تما م تر معاشی مسائل کے باوجود عید کے کچھ متعلقات ایسے ہیں جو ہمارے خون اور عادت میں رس بس چکے ہیں اور عید کی مخصوص خریداری نہ صرف ایک بہت مستحکم معاشرتی رویہ ہے بلکہ اس کے ساتھ معاش کے بھی بے شمار پہلو جڑے ہوئے ہیں سو لوگوں کا معمول سے زیادہ گھروں سے نکلنا اور بازاروں میں جمع ہونا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے مگر یہ جانتے ہوئے کہ باہمی میل جول کے اس پھیلائو سے ہم سب اور بالخصوص ہمارے بزرگ اس خوفناک اور اب تک تقریباً لا علاج وباء کے شکار ہو سکتے ہیں، اس ضمن میں بہت تامل اور تدبیر کی ضرورت تھی۔

دکانداری کی حد تک کچھ چیزوں کی پابندی کرانا کسی نہ کسی حد تک ممکن تھا سو عمومی طور پر کچھ پابندیوں پر عمل بھی کیا گیا ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض بہت بڑے، با رسوخ اور برخود غلط تاجروں نے استطاعت رکھنے کے باوجود نہ صرف اپنے عملے پر ان پابندیوں کا اطلاق نہیں کیا بلکہ اپنے گاہکوں کو بھی ان کا احساس دلانے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ یہ درست ہے کہ باقی دنیا اور بالخصوص یورپ اور امریکا کے مقابلے میں ہمارے یہاں اس وائرس نے نسبتاً بہت کم تباہی پھیلائی ہے اور ہمارے یہاں اس وباء کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد بھی کم ہے۔

اب اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس کی وجہ کیا ہے دیکھنے، غور کرنے، سوچنے اور ڈرنے والی بات یہ ہے کہ جس قدر ہم اس وباء کے پھیلائو کے لیے ماحول کو سازگار بناتے جائیں گے اس کی شدت اور خطرات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور خدانخواستہ ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب اس کا سدباب ہمارے تمام ممکنہ وسائل کی طاقت اور وسعت سے بالاتر ہو جائے یہاں یہ بات یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ اس وباء کا شکار ہونے والے ترقی یافتہ ملک بھی مرنے والوں کی لاشوں کو سنبھالنے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے میں لاچار اور بے بس ہو گئے تھے۔ اندریں حالات اس رونق میلے والے روّیئے پر غور کرنے اور اس کی فوری اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

سرکار کوئی مارکیٹ بند کرتی ہے تو تاجر حضرات اسے اپنی روٹی پر لات مارنے سے تشبیہ دیتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ عوام کے غیر ذمے دارانہ روّیئے کی سزا انھیں نہ دی جائے، دوسری طرف عوام میں سے جو لوگ حفاظتی تدابیر پر عمل کرتے ہیں وہ بھی اس بات پر شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ انھیں اور ان کے بچوں کو عید کی خوشیاں منانے کے لیے مناسب خریداری کے مواقع مہیا نہیں کیے جا رہے۔

دونوں باتیں جزوی طور پر ٹھیک ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کا جو ہجوم اور جم غفیر کسی نصیحت پر کان دھرے بغیر سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جس طرح سے بے شمار لوگ کسی احتیاطی تدبیر پر عمل کیے بغیر آپس میں مل جل رہے ہیں، اس کو کیسے روکا جائے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو صورتِ حال کو کم یا زیادہ خراب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، ایک طرف ہم روزانہ ٹی وی چینلز پر بار بار یہ حدیث مبارک دکھاتے اور سناتے ہیں کہ جب کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو اُسے دوسرے علاقوں سے منقطع کر کے ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہییئں جن سے اُس وبا کے پھیلائو کو روکا جا سکے اور دوسری طرف ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ایک ایسے راستے پر چل رہا ہے جو اس وباء کے پھیلائو کا سب سے آسان راستہ ہے۔

اب سائنس دانوں کی طرف سے یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ شائد فلو، ایچ آئی وی، ہپا ٹائٹس اور کچھ اور بیماریوں کی طرح اب ہمیں کورونا کے ساتھ بھی سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بہت جلد ہم کسی ایسی حفاظتی ویکسین کی دریافت میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری آیندہ نسلوں کو اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دے مگر یہ سب تو آنے والی کل کی باتیں ہیں، آج کی حقیقت یہی ہے کہ ہم ہر وہ ممکنہ احتیاط برتیں جس کی ہمیں بار بار تاکید کی جا رہی ہے اور کم از کم اس عید کی حد تک اُس رونق میلے کی طرف نہ جائیں جو کوئی چھپا نہیں بلکہ ہمارا اعلانیہ دشمن ہے۔