Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taash Ke Bawan Pattay

Taash Ke Bawan Pattay

میرے قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں سیاست اور بالخصوص حالات حاضرہ سے متعلق سیاست کے بارے میں بہت ہی کم لکھتا ہوں کہ میرے نزدیک بوجوہ یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہے اور یوں بھی ہمارے یہاں سیاسی تجزیئے کو غیر سیاسی انداز میں لکھنے اور پڑھنے کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے لیکن سینیٹ کی سیٹوں اور پھر اس کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب تک بہت سے ایسے افسوسناک مگر ایک حد تک دلچسپ واقعات سامنے آئے ہیں کہ اُن پر ایک خاص حوالے سے بات کرنے کو جی چاہ رہا ہے اور وہ خاص حوالہ یہ ہے کہ حال ہی میں میں نے ایک ایسی نظم لکھی جو تاش کے پتوں کے اِردگرد گھومتی ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں تاش میں دائو، بلف شارپنگ، ذہانت، بے وقوفی اور آ بیل مجھے مار کی سی کیفیات ایک ساتھ چلتی ہیں اور اس کے بعض کھیلوں میں کھلاڑی ایک گروپ کی شکل میں مل کر بھی کھیلتے ہیں اور عام طور پر ہارنے والے اپنی شکست کو بے دلی سے تسلیم کرتے ہوئے سارا الزام کسی ایک غلط چال پرڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجھے ان باتوں سے اچھی خاصی واقفیت اس لیے بھی ہے کہ تیس پینتیس برس قبل ہمارے دوستوں کا ایک گروپ ہر چھٹی کے ر وز تاش کی ایک محفل ضرور جماتا تھا اَب اُس گروپ میں شمیم اخترسیفی، افتخار احمد بٹ، انیس خاں اور اُستاد اختر اس دنیا میں نہیں ہیں ربِ کریم محمود قریشی، معین خان اور جاویدنانی کو سلامت رکھے کہ یہ اُسی گروپ کے پسماندگان میں سے ہیں جس طرح تین اور بارہ مارچ کو حکومت اور اپوزیشن کے نمایندوں نے اپنی جیت اور ہار کی مختلف توضیحات پیش کیں اور مخالف پارٹی پر غلط پتے بانٹنے اور شارپنگ کے الزامات عائد کیے اور ضمیروں کی تبدیلی اور خریدوفروخت کی کہانیاں سنائیں اُن سے مجھے وہ پرانی تاش پارٹیاں بہت یاد آئیں ہم لوگ رَمی سے ملتی جلتی ایک کینٹس نامی گیم کھیلا کرتے تھے جس میں بیک وقت سات لوگ تک حصہ لے سکتے ہیں اور یہ تین تاشوں کو ملا کر کھیلی جاتی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کھیل کے دوران جس انداز کی گفتگو ہوا کرتی تھی اُس کی نوعیت اور مزاج روزانہ شام سات سے رات گیارہ بجے کے دوران ہونے والے ٹی وی شوزسے کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں تھا دس سے گیارہ بجے والا گھنٹہ اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ اس گروپ میں مسخروں کی بھی کمی نہیں تھی بظاہر پتوں مگر اصل میں جیتنے والوں کو دی جانے والی گالیاں اور فری فار آل قسم کی جُگتیں پوری نشست کے دوران جاری رہتی تھیں اور بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی زبان استعمال کرتے دیکھے جاتے تھے کہ طلال چوہدری، شہبازگِل اور سعید غنی وغیرہ بھی اُن کے سامنے بالشتی، نظر آتے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ حفیظ شیخ کے مسترد شدہ دونوں کو الیکشن کمیشن کا صحیح فیصلہ قرار دیتے ہیں وہی یوسف رضا گیلانی کے مسترد شدہ دونوں کو مقرر کردہ عملے کی بددیانتی پر محمول کرتے ہیں اور جن کے نزدیک مریم اورنگزیب کی بد زبانی قابلِ گرفت ہے وہی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی زبان کو جائز قرار دینے پر اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

زرداری، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے حامی جن باتوں پر عمران خان کو نشانہ تضحیک بناتے ہیں کم و بیش اُسی انداز میں عمران خان بھی اُن سے ہم کلام ہوتا ہے جس اسٹیبلشمنٹ کا سب مل کر رونا روتے ہیں اُس کے ایک سابقہ جرنیل کے دو بیٹے اسد عمر اور محمد زبیر دو مخالف جماعتوں کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مزید تفصیل میں جانے اور تکرار سے بچنے کے لیے آیئے اب کچھ وقت اُس نظم کے ساتھ گزارتے ہیں جس نے اس موضوع پر بات کرنے کی بالواسطہ ترغیب دی۔

تاش کے باون پتوں کا ہی سب یہ کھیل تماشا ہے

یہ دھرتی اوراس کے اندر جو بھی کچھ ہے

ان ہی باون پتوں کی تقسیم سے جانا جاتا ہے

کھیل، کھلاڑی اور یہ پتے یُوں تو بدلتے رہتے ہیں

لیکن بازی رُک نہیں پاتی

سب ہی اپنی اپنی چالیں اپنے ہاتھ میں آنے والے

پتے دیکھ کر ہی چلتے ہیں

کوشش کرکے اپنے چہرے بے چہرہ سے رکھتے ہیں

پتے اچھے آجائیں تو

ان کے اندر وہی درندہ جاگ اُٹھتا ہے

جو جنگل کے دور میں طاقت اور حکومت کا مظہر تھا

لیکن جب کمزور ہوں یہ تو ان کی حالت

لومڑی جیسی ہوجاتی ہے

یعنی وہ اِک جُھوٹ میں لپٹی نخوت لے کر

چالیں چلے جاتے ہیں

جاگتی آنکھوں سے دیکھے اک خواب کو سچّا جانتے ہیں

اپنے آپ کو دھوکا دے کر اس کو ہُنر گردانتے ہیں

دیکھ سکو تو آدم کی تاریخ کا یہ افسانہ بھی

اصل میں باون پتے ہیں جو ہاتھ بدلتے رہتے ہیں

کبھی کبھی یہ بازی ایسے موڑ پہ آکر رُک جاتی ہے

جس سے آگے ایک ہی دائو کی مُٹھی میں

ہر امکان سمٹ جاتا ہے

(اک لمحے میں یا تو ساری جھولی یک دم بھر جاتی ہے

یا پھر ظالم وقت کا پہیہّ، سارا کھیل اُلٹ جاتا ہے)

یُوں تو بظاہر

باون پتوں کا یہ اُلجھا کھیل ہی اپنا جیون ہے

جن کی ہر تقسیم نئی ہے

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تاش کی ہر اک گڈی میں بھی

دو پتے ہیں، ایسے بھی جو یوں تو جوکر کہلاتے ہیں

کھیل میں شامل ہو نہیں پاتے، اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں

لیکن ا ن کے مِل جانے سے باون پتے

ایک ہی پَل میں بڑھ کر چوّن ہوجاتے ہیں

اور پرانے پتوں کی ترتیب بدلتی جاتی ہے

اب ان کو تقدیر کہو تم یا کہہ لو کچھ اور

کھیل میں ان کے آتے ہی ہر چیز نئی ہوجاتی ہے

ہلکے دِکھنے والے پتے یک دم بھاری ہوجاتے ہیں

خوف خوشی میں ڈھل جاتا ہے

کھیل میں بٹنے والے پتّے ایک ہی جیسے لگتے ہیں پر

سارا کھیل بدل جاتا ہے

مانا باون پتوں کا ہی سب یہ کھیل تماشا ہے جو

پھر سے بٹنے والے ہیں

سر کو جُھکا کے، دستِ دعا کو پھر سے اُٹھا کے

آئو اپنے پتے دیکھیں اور یہ جانیں

بخت میں اپنے کیا لکھا ہے!

قاسم نے تقدیر کے اب کے

ان میں چھپا کر کیا رکھا ہے!