کل زُوم ایپ پر موٹر وے پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ میٹنگ کا موقع ملا جس کا پسِ منظر یہ تھا کہ موٹر وے اتھاریٹیزنے اپنے صاحبِ علم آئی جی کی تحریک پر اپنے سینئر افسران کے ساتھ ایسے لوگوں کی ملاقات، لیکچرز اور گفتگو کا اہتمام کیا ہے جنھوں نے اپنے شعبے میں دوسروں سے کچھ زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو اور میزبانوں کے مطابق متعلقہ شخص کے زندگی بھر کے تجربات اور ان سے حاصل شدہ نتائج کو نہ صرف شیئر کیا جائے بلکہ مختلف سوالات کے ذریعے سامعین کے ردِّعمل کو بھی اس میں شامل کیا جائے، اس آخری حصے میں میری فرمائش بھی شامل تھی کہ ہم عام طور پر بولتے تو بہت ہیں مگر ایک دوسرے سے مکالمہ بہت کم کرتے ہیں۔
میرے نزدیک روائتی قسم کے لیکچر ایک طرح کی خودکلامی بن کر رہ جاتے ہیں کہ بولنے والے کو سامعین کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالوں تک رسائی ہی نہیں ہوتی مجھے خوشی ہوئی کہ وہ لوگ پہلے سے انھی لائنوں پرسوچ رہے تھے، اس سارے معاملے میں رابطے کا کام ڈی آئی جی محبوب اسلم للہ کمانڈنٹ ٹریننگ کالج انجام دے رہے تھے سو ہوا یُوں کہ ابتداء میں آئی جی کلیم امام صاحب نے بہت محبت سے میرا تعارف کرایا اور پھر بتایا کہ 29 منٹ تک مجھے اپنے زندگی کے سفر اور اس کے مختلف مراحل کے بارے میں بولنا ہے اور اس کے بعد سوال و جواب کا ایک اوپن سیشن ہو گا۔
پروگرام کا پہلا حصہ تو بخیرو خوبی نمٹ گیا جس میں میں نے اپنے خیالات کو موٹر وے سے متصل اصطلاحات اور رشتوں سے جوڑ کر عوام کی نظر سے کچھ مسائل اور ان کے مجوزہ حل کا تذکرہ کیا لیکن دوسرے حصے میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ قباحت پیدا ہو گئی کہ میری آواز تو انھیں سنائی دے رہی تھی لیکن سوال کرنے والوں کی آواز اور سرگوشیوں میں بس اُنیس بیس ہی کا فرق رہ گیا تھا سو بیشتر سوالوں کے جواب اندازے سے ہی دینا پڑے۔ شکر کی بات یہ ہے کہ سامعین کے بیان کے مطابق میرے اندازے تقریباً ٹھیک تھے۔ اس موقعے پر موٹرو ے پولیس اور اس سے متعلقہ معاملات پر میں نے جو گفتگو کی اُس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے۔
جب سے وطنِ عزیز قائم ہوا ہے، بہت کم سرکاری اور عوام سے متعلق اداروں میں سنجیدگی اور استقلال سے بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس سے بھی زیادہ خراب صورتِ حال اُن اداروں کی ہے جن کی بنیاد ہی آزادی کے بعد رکھی گئی۔ یوں تو ان کی فہرست خاصی لمبی ہے لیکن تین زیادہ معروف ادارے کراچی اسٹیل مِل، پی آئی اے اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن ہیں کہ ان تینوں کی اُٹھان بہت شاندار تھی اور چند ہی برسوں میں انھوں نے فقید المثال ترقی بھی کی مگر اس کے بعد تساہل پسندی، کمٹمنٹ کی کمی اور الل ٹپ سیاسی دبائو والی بھرتیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ آج یہ تینوں ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہی نہیں بلکہ تقریباً اس گڑھے میں گِر بھی چکے ہیں۔
ماضی قریب میں بھی دو ایسے ہی عمدہ اور بہت ضروری اداروں کا قیام عمل میں آیا جو اس وقت تک بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ میری مراد 1122 اور موٹر وے پولیس سے ہے سو اِن کے کارپروازان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تین مندرجہ بالا مثالوں سے سبق اور عبرت حاصل کریں اور سیاسی پارٹیوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے اس سفارشی روّیئے میں تبدیلی لائیں اور ووٹ کے ساتھ ساتھ میرٹ کی بھی تعظیم کریں۔
جہاں تک موٹر وے پولیس کا تعلق ہے اس کی مجموعی کارکردگی اب تک بہت حوصلہ افزا ہے کہ اس میں شامل عملے کا تعلیمی اور تہذیبی معیاردیگر سرکاری محکموں کی نسبت بہت بہتر ہے ان کے دائرہ کار میں سفر، مسافر اور مسافر نوازی ایک دوسرے سے اس طرح گُھل مل گئے ہیں کہ اتحاد، ایمان، تنظیم کی طرح ان کے لیے بھی آپس میں مربوط اصول کچھ اس طرح سے وضع کیے جا سکتے ہیں " تحفظ۔ رہنمائی۔ مدد۔"
عملی طور پر اس وقت بھی موٹر وے پولیس یہ تینوں فرائض انجام تو دے رہی ہے مگر کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس کا کام صرف مستعدی کے ساتھ قانون شکنی پر چالان کرتے جانا ہی نہیں ہونا چاہیے اگر کسی سے کسی بھی وجہ سے سہواً کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور وہ مہذب انداز میں اس کو تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ دہرانے کا وعدہ بھی کرتا ہے تو زیادہ تر کیسز میں چالان کرنے کے بجائے اُسے سمجھانے کے ساتھ ایک وارننگ دی جانی چاہیے البتہ اگر جرم زیادہ سنگین ہو یا متعلقہ شخص کا روّیہ مناسب نہ ہو تو ضرور حسبِ قاعدہ سخت سزا دیجیے۔ اس کمپیوٹرائزڈ دور میں وارننگ کا ریکارڈ رکھنا کوئی مشکل کام نہیں معمولی فرو گزاشت کی صورت میں دو دفعہ بھی چالا ن نہ کرنے سے لوگوں کے روّیئے اور محکمے سے اُن کے تعلق میں دُور رَس بہتری آ سکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ راستے میں آنے والے سروس ایریاز میں کاروبار کرنے والوں کو کچھ اضافی مشکلات اور مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ چیزوں کو تین گنا زیادہ قیمت پر فروخت کریں، میرے خیال میں یہ معاملہ موٹر وے اتھارٹی ہی کے دائرہ کار میں آتا ہے کہ وہ ان اضافی قیمتوں اور ٹائر شاپس پر کی جانے والی مبینہ مسافر دشمن کا روائیوں پر نظر رکھیں اور مسافروں کو وہ ہر ممکن تحفظ دیں جو ان کا حق ہے۔ آخر میں ایک ایسی نظم جس کا نام ہی "موٹروے پر" ہے اور جو اس کے آغاز کے دنوں میں لکھی گئی تھی، برسوں بعد پڑھنے اور سُنانے کا موقع ملا جس کا پہلا نصف کچھ اس طرح سے ہے۔
دیکھ دیکھ کے ایک سے منظر، آنکھیں تھک سی جاتی ہیں
بند اگر ہوں کار کے شیشے
ایسا لگتا ہے
رُوح کے اندر اُتری جائے سناّٹے کی گُونج
کھولیں تو پھر تیز ہوائیں، ایسا شور مچائیں
اِک دُوجے کی بات بھی سننا ہوتا ہے مشکل
کون آیااور کون گیا ہے!
اِس کو کیا پروا
پتھر کی ہموار سڑک کا پتھر جیسا دل