وہ اپنے انداز کا ایک ایسا منفرد صدا کار تھا کہ اُس کے لہجے اور بولنے کے مخصوص انداز کی تقلیدگلوکاروں کی طرح سے کی گئی، آج وہ خود تو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ہے مگر اُس کی آواز کی گونج ماضی ا ور آج کے سنتے کانوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی سماعتوں کو بھی روشن اور منور کرتی رہے گی۔
ساہی وال سے اپنی نامکمل درسی تعلیم کے ساتھ وہ پچاس کی دہائی کے آخری برسوں میں لاہور آیا اور پھر یہیں کا ہورہا۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُن غربت اور کشمکش کے دنوں میں بھی نہ صرف اُس کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہا بلکہ غریبوں سے ہمدردی اور انصاف کی پاسداری کے لیے بھی وہ ہر موقعے پر پیش پیش رہتا تھا، اپنے والد عبدالعزیز(جو اپنے نام کے ساتھ "پاکستانی" لکھا کرتے تھے) سے اُس نے پاکستان سے محبت کا جو سبق سیکھا اس کی خوشبو حالات کے ہر موڑ پر اُس کے ساتھ رہی۔ بلاشبہ طارق عزیز ایک سچا، جذبانی، جوشیلا اور سیلف میڈ انسان تھا۔
ابتدا میں اُس کے پاس صرف فطرت کی عطا کردہ ایک پاٹ دار آواز تھی مگر آگے چل کر اُس کی شعر و ادب سے محبت، فنی صلاحیت اور اپنی زبان اور تہذیب سے پیار کے باعث اُس کی شخصیت کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور وہ ریڈیو کی اناؤنسری اور صدا کاری سے چلتا ہوا پاکستان ٹیلی وژن کی پہلی ٹرانسمیشن کا میزبان، ڈرامہ اداکار اور پروڈیوسر بنا، وہاں سے فلموں میں گیا پھر بھٹو صاحب کے ساتھ مل کر کچھ عرصہ سیاست کے ریگزاروں کی خاک چھانی اور بالآخر 1975ء میں اُس منزل پرپہنچا جو اُس کی اصل پہچان بننا تھی اور کئی برسوں سے اُس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
"نیلام گھر" اپنے انداز کے اعتبار سے منفرد سہی مگر اپنی اصل میں ایک عام سا کوئز ٹائپ عوامی شو تھا جس کے پیٹرن کی محدودیت اور یکسانیت کے باعث اس کا ایک دو سہ ماہیاں چل جانا بھی ایک بہت کامیابی کی بات تھی، اب یہ کمال طارق عزیز کا ہے کہ ناموں کی تبدیلی اور سرکاری مداخلت سے پیدا شدہ رکاوٹوں کے باوجود وہ تقریباً چالیس برس اسے ایسے زور دار اور باکمال انداز میں چلاتا رہا کہ اُس کے جیتے جی اس جیسا کوئی ایک شو بھی اُس کے آگے دم نہ مارسکا۔
جہاں تک طارق عزیز سے ذاتی تعلق اور ملاقاتوں کی بات ہے تو اس کا باقاعدہ آغاز 1976 میں اس وقت ہوا جب فن کاروں کے حقوق کے تحفظ اوراُن کی مدد اور دیکھ بھال کے لیے پاکستان آرٹسٹس ایکوئٹی کے نام سے ایک یونین بنائی جا رہی تھی جس کے بنیادی اور زیادہ پُرجوش ارکان میں میاں اعجاز الحسن، محمد قوی خان، سلیم ناصر مرحوم اور طارق عزیز سب سے پیش پیش تھے۔
اتفاق سے مجھے اس جماعت کے تشکیلی انتخابات میں الیکشن کمشنر کا بھاری بھرکم عہدہ (پتہ نہیں کیوں اور کیسے) دیدیا گیا حالانکہ میں اس فیلڈ میں ابھی تقریباً نووارد ہی تھا "نیلام گھر" کا آغازہوچکا تھا جس میں طارق عزیز کے شعر پڑھنے کا انداز تیزی سے مقبول ہو رہا تھا جس محنت، جوش اور جذبے سے وہ فن کاروں کی اس ٹریڈ یونین کے معاملات میں دل و جان سے سرگرم رہتا تھا وہ بے حد متاثر کن تھا۔ میرے فری میسن بلڈنگ والے پنجاب آرٹس کونسل کے ابتدائی دفتر کے سامنے لان میں شام کے وقت یہ لوگ جمع ہوتے تھے، طارق بات بات پر اشعار سناتا تھا جو اُس کی پاٹ دار آواز میں ایک سماں سا باندھ دیتے تھے۔ آرٹسٹس ایکوئٹی تو بوجوہ زیادہ دیر نہ چل سکی مگر طارق عزیز سے قائم ہونے والا دوستی کا رشتہ اُس سے آخری دم تک برقرار رہا۔
"نیلام گھر" جو بعد میں "بزمِ طارق عزیز" اور "طارق عزیز شو" کے نام سے چلتا رہا کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند تھی وہ طارق عزیز کا نوجوانوں کی ذہنی، اخلاقی اور ادبی تربیت کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت کا وہ اظہار تھا جو اُس کے پورے شو میں جاری و ساری رہتا تھا، وہ اپنے مہمانوں کی جس بھر پور اور عمدہ اندازمیں پذیرائی کرتا اور اُن کی خوبیوں سے نوجوان نسل کو آگاہ کرتا تھا وہ اپنی مثال آپ تھا۔
ہرہفتے اُس کے پروگرام کی ریکارڈنگ میں پانچ چھ سو ناظرین شریک ہوتے تھے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی تھی اور جن میں بعض اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے شوخی کی حدوں سے آگے نکل جاتے تھے۔ طارق عزیز کا کمال یہ تھا کہ وہ ایسے انداز میں اُن کی سرزنش کرتا تھا کہ اُن کی توہین بھی نہ ہو اور انھیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے۔
یوں تو اس کا ذوق اور حافظہ دونوں ہی بہت اچھے تھے مگر پنجابی کے صوفی ا ور لوک شاعروں کے کلام کا تو وہ حافظ تھا اور چن چن کر ایسے شعر نکالتا تھا کہ "وہ کہیں اور سنا کرے کوئی"کا سا ماحول بن جاتا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ نہ صرف خود بھی بہت اچھی پنجابی شاعری کرتا ہے بلکہ وہ اپنے نام کی تشہیر کیے بغیر انھیں اس طرح اپنی گفتگو میں جوڑتا چلا جاتا تھا کہ اکثر لوگ انھیں بھی اساتذہ کا کلام ہی سمجھتے تھے۔
اُس نے عملی طور پر پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا اور غالباً وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا واحد فن کار ہے جو باقاعدہ الیکشن میں حصہ لے کر قومی اسمبلی کا ممبر بنا۔ چند ماہ قبل ایک تقریب میں اُس سے آخری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ اب اُس کے ہاتھوں کا رعشہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اگرچہ وہ اپنی آواز کے جادو کو اب تک قائم رکھے ہوئے ہے مگر اب وقت نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا ہے۔ کورونا کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے مجھ سمیت بہت سے دوست اُس کی تدفین میں شامل نہ ہوسکے مگر وہ اپنی یادوں کے توسط سے آج بھی ہم سب کے دلوں میں زندہ ہے۔
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ان دنوں ہر روز فیس بک پر کسی نہ کسی ایسے باکمال شخص کی رحلت کی خبر دیکھنے کو ملتی ہے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ یا د وابستہ ہوتی ہے۔ طارق بھائی کی وفات کی اس خبر کے آگے پیچھے بھی اس طرح کی کئی خبریں سامنے آئی ہیں۔
دوست محمد فیضی سے تین دہائیوں کی آشنائی تھی، اللہ بخشے پروین شاکر اُن کا ذکر بہت محبت سے کرتی تھی، یہی حال اُس زمانے کی مشہور مقرر بہنوں منور غنی(کلیمی) اور کشور غنی کا تھا کہ یہ سب لوگ کم و بیش ایک ہی زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم رہے، ان کے علاوہ اوپر تلے سعد اللہ شاہ، ڈاکٹر ثروت زہرا اوربینا گوئندی کے سروں سے انھی دنوں میں والد کا شفیق سایا بھی اُٹھ گیا ہے جب کہ ابھی ابھی برادرم مسعود اشعر کی اہلیہ کی رحلت کی خبر نظر سے گزری ہے۔ رب کریم ان سب مرحومین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور طارق عزیز کے ساتھ ساتھ ان سب کی نیکیوں کے ثواب کو بھی اپنی رحمت سے اس قدر بڑھا دے کہ سب کے سب جنت کے حق دار ہوجائیں۔