بہت دنوں کے بعد آج موقع ملا ہے کہ کورونا کے دنوں میں پڑھی جانے والی دو کتابوں پر کچھ بات کرلی جائے کہ کورونا نے تقریباً وہی صورتِ حال پیدا کر دی تھی جس کے بارے میں شیخ سعدی نے دمشق میں پڑنے والے قحط کے حوالے سے کچھ یوں کہا تھا،
چناں قحط سالی شد اندردمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
سو ہوا یوں ہے کہ گزشتہ چار ماہ میں ملنے والی بیس پچیس کتابوں میں کم از کم چھ ایسی تھیں کہ ان کا نوٹس لیا جائے مگر فی الوقت انہی دو پر اکتفا کرنا پڑے گا البتہ مسعود مفتی صاحب کی "دو مینار" کے نام سے زیر مطالعہ کتاب ایسی ہے کہ اس پر ایک سے زیادہ کالم لکھے جانے چاہییں کہ اس کا ہر باب بلکہ ہر صفحہ اپنے اپنے حوالے سے توجہ اور غور طلب ہے، اس وقت جو دو کتابیں میرے ساتھ ہیں، ان میں سے ایک سید طاہر کا شعری مجموعہ "تصرف" چھپ چکی ہے جبکہ "بن واس" کے نام سے شکیل اعظمی کی کتاب طباعت کے آخری مراحل میں ہے البتہ اس کا مکمل مسودّہ چونکہ میری نظر سے گزر چکا ہے، اس لیے اس پر بات کی جاسکتی ہے۔
تصرف کے مصنف تونسہ کے رہائشی سید ساجد مجید طاہر کا یہ دوسرا غزلیہ اور کل ملا کر تیسرا شعری مجموعہ ہے اور اس کے مصنف کو میں تب سے جانتا ہوں جب ابھی یہ صاحبِ کتاب نہیں بنے تھے جس محنت، مطالعے اورمشقِ سخن سے انھوں نے کام لیا ہے، وہ بھی میرے علم میں ہے سو ان کے اس تازہ شعری مجموعے کو دیکھ کر میرا ان تعارفی الفاظ پر یقین اور اعتماد بڑھا ہے جو میں نے اُس کی پہلی کتاب کے فلیپ کے لیے لکھے تھے۔ تونسہ جیسی دور دراز اور ادبی حوالے سے غیر مددگار فضا میں رہتے ہوئے اس نوجوان نے جو ترقی کی ہے وہ اس کے ہم عصروں کے لیے یقینا تقویت اور تقلیدکا باعث ہے کہ ایسے مضبوط اور تخلیقی قوت کے حامل اشعار اتنی بڑی تعداد میں تو بعض سکہ بند اور زیادہ معروف شعرا کے ہاں بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔
اپنے کردار کے آئنے کو صورت بخشی
نقشِ امروز سے کھولا درِ فرد امیں نے
…………
ان سنی کردی ہے میں نے تیرے آنے کی خبر
روشنی کی ہر کرن سے ان دنوں پرہیز ہے
میں اُس کی آنکھ میں واپس وہ خواب چھوڑ آیا
جو اُس نے بھیجا تھا نیندیں حرام کرنے کو
…………
پیچھے مڑ کر دیکھنے کی آرزو مت کیجئے
زندگی ون وے ٹریفک ہے بہائو تیز ہے
…………
مرے ہی دم سے اُڑی پھر رہی تھی صحرا میں
میں اُٹھ رہا ہوں سو اب خاک بیٹھ سکتی ہے
…………
سلگ رہی ہیں یہ آنکھیں اُلجھ رہی ہے نظر
کہیں یہ خواب تو زنجیر ہونے والے نہیں!
…………
زندگی لطیفہ ہے
قہقہہ لگانے دو
عشق کیجئے تو سمجھ میں آئے گا
خواب کیا ہے خواب کا اسرار کیا
…………
تم نے سمجھا روشنی کے قتل کا نوحہ جسے
وہ سکوتِ شام پر اک قہقہہ پانی کا ہے
…………
یہ کاروبارِ فراغت تمام کرنے کو
میں صبح گھر سے نکلتا ہوں شام کرنے کو
ان چند اشعار کی مثالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سید طاہر روائت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی زندگی کے مظاہرسے بھی نہ صرف واقف ہے بلکہ لِسانی اور فکری دونوں سطحوں پر ان سے بھر پور کام بھی لیتا ہے۔
بھارت کی نئی نسل کے نمایندہ اُردو شاعروں میں شکیل اعظمی کئی حوالوں سے منفرد اور ممتاز ہے اگرچہ میں نے اُس کے ساتھ مشاعرے بھی پڑھے ہیں اور اُس کا کلام بھی گاہے گاہے نظر سے گزرتا رہتا ہے لیکن جس شخص کی شاعری پر وارث علوی مرحوم بیس صفحات پر مشتمل مضمون لکھ دے اُسے کسی اور گواہی کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ وارث علوی سے شعر کی داد لینا ہمالیہ کو سر کرنے سے کم نہیں۔
"بن واس" شکیل اعظمی کا ساتواں مجموعہ کلام ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری میں بھی بطور شاعر اُس کا نام بہت عزت سے لیا جاتا ہے مگر یہ کتاب اُس کی غزلوں، نظموں اور گیتوں سے مختلف یکسر ایک نئے شکیل اعظمی کو ہم سے متعارف کراتی ہے۔ پاکستان میں رہنے اور بالخصوص ساٹھ کی دہائی کے بعد جنم لینے والی نسل کے لیے ہندومائی تھالوجی صرف وہاں کی چند فلموں اور کچھ مخصوص نوعیت کے سینوں تک محدود ہے۔
شکیل اعظمی نے اس کتاب میں "جنگل" کے استعارے کو جس طرح سے اس مائی تھالوجی کے ساتھ جوڑا اور اس سے ہم آہنگ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اس کتاب کا نام یعنی "بن واس" بھی اسی صورتِ حال کی عکاسّی کرتا نظر آتا ہے کہ اس میں شامل تمام غزلیں اور نظمیں جنگل کے گرد گھومتی ہیں اور اس اعتبار سے رام چندر جی کا "بن واس" ایک مرکزی حوالہ بن کر اُبھرتا ہے۔
کسی نظم کو اس کے پھیلائو اور تسلسل کے باعث یہاں درج کرنا ممکن نہیں کہ کسی ایک بند یا چند لائنوں سے اس کی معنویت اور نوعیت کا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوسکتا البتہ غزلوں کے چند اشعار کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہاں جنگل صدیوں پرانی روائت سے لے کر آج بلکہ اس سے بھی آگے تک پھیلا ہوا ہے۔
کٹے ہیں ہاتھ پیڑوں کے دُعا جنگل سے غائب ہے
قیامت آنے والی ہے خدا جنگل سے غائب ہے
اب کے بن واس میں سیتا ہے نہ لچھمن مرے ساتھ
جتنے الزام ہیں سب مجھ پہ لگا دے جنگل
ایک دن پیڑ بھی جڑ سے اکھڑ جائیں گے
بات مانو مری دنیا ہے فنا کا جنگل
جرم چھپتا ہے کہاں رات کے پردے میں شکیل
ہوگئی صبح تو اخبار سے جنگل نکلا
خیال آیا جب اُڑنے کا تو پَر نکلے پرندوں کے
پروں کے ساتھ ہی اک آسماں جنگل سے نکلا تھا
سوتے ہوئے چیخ اُٹھا ہے
خواب میں شائد ڈرا ہے جنگل
"بن واس" بھارت میں ہونے و الی اُس اُردو شاعری کا ایک عمدہ نمونہ ہے جو عام طور پر وہاں کے مشاعروں اور شاعروں دونوں ہی کے ہاں بہت کم نظر آتی ہے۔ اُردو زبان میں ہندی کے الفاظ اور استعاروں نے جو بہت خوب صورت رنگ ایذادکیے ہیں انھیں جاننے کے لیے شکیل اعظمی کی یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔