میرا نہیں خیال کہ اس وقت عالمی سطح پر دوملکوں کے درمیان کشمیر سے زیادہ پرانا کوئی قضیہ موجود ہے اور اگر اس کے لیے باہمی جنگوں، اُن میں ہونے والے نقصان اور 73برس سے ہونے والے کشمیریوں کے جان و مال کے نقصان ا ور انسانی حقوق کی بے حرمتی کو سامنے رکھا جائے تو یہ مسئلہ ا ور بھی زیادہ گھمبیر ہوجاتا ہے۔
بھارت کا یہ کہنا کہ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے ایک خاص معاہدے کے تحت کشمیر کی ایک منفرد حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا الحاق اس سے کرلیا تھا، اس لیے غلط ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایسا تھا تو اقوام متحدہ میں اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے اور اس کے عوام کو ان کا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا آزادانہ موقع دینے کا وعدہ کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔
اب رہی یہ بات کہ 1948 کی جنگ بندی اور لائن آف کنٹرول کو ہی اس کا مستقل حل تسلیم کرلیا جائے تو یہ تقسیم برصغیر کے وقت عمل پذیر کسی بھی طریقے سے مطابقت نہیں رکھتا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اب اتنے برس گزرنے کے بعد اگر وہاں کے عوام سے یہ رائے لی جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس میں ایک تیسرا راستہ بھی منتخب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور وہ یہ کہ یہ علاقہ ایک خود مختار ریاست کے طور پر بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے، اگر چہ عملی طور پر اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہ مقبوضہ اور متنازعہ علاقہ دراصل تین حصوں میں منقسم ہے۔
جموں کے علاقے میں ہندوئوں کی اکثریت ہے جب کہ وادی لیپا اور اس سے منسلک علاقوں میں ہندو مسلمان اور بدھ مت کے پیروکار تقریباً ایک جیسی تعداد میں ہے البتہ وادی یعنی سری نگر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مسلمان آبادی کل آبادی کے نویّ فیصد سے بھی زیادہ ہے اور یہاں کے لوگ بھی واضح طور پر پاکستان میں شمولیت کے حامی ہیں لیکن اصل بات یہ تقسیم یا الحاق نہیں بلکہ کشمیریوں کا وہ حقِ رائے دہی ہے جس کو ایک سازش کے تحت سلب کرلیا گیا ہے اور اسّی لاکھ لوگوں پر آٹھ لاکھ فوج مسلط کرکے انھیں مسلسل خوف وہراس میں زندہ رکھا جا رہا ہے جس کے دوران وہ ہزاروں کے حساب سے جانوں کے نذرانے بھی دے چکے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانی قوم پہلے دن سے اُن کے حقِ آزادی کے ساتھ ہیں۔ چند شدت پسند لوگ یا ایک دوسرے کے سیاسی مخالفین اپنے اپنے مسائل کی وجہ سے اس معاملے میں کچھ مختلف طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں مگر عمومی سطح پر مجموعی رائے یہی ہے کہ سب سے پہلے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ملنی چاہیے، اس کے بعد وہ اپنے لیے کیا راستہ پسند کرتے ہیں، اس کا فیصلہ اُن پر چھوڑ دینا چاہیے۔
بدقسمتی سے ان 73برسوں میں سیاسی ترجیحات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہماری حکومتوں کا رویہ بوجوہ بدلتا رہا ہے۔ ایک طرف ہم نے اس حوالے سے بھارت سے جنگیں بھی لڑی ہیں اور دوسری طرف ایسے ادوار بھی آئے ہیں جب خاموشی اور بے نیازی سے بھی کام لیا گیا ہے ا ور بھارت کو خوش کرنے کے لیے ایسے اقدامات بھی کیے گئے ہیں جنھیں کشمیر کاز کے ساتھ غداری سے ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ آپس کی سیاسی دشمنیوں کے حوالے سے بھی بعض ایسے رویے سامنے آئے ہیں جو کشمیر یوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم اور ہر انصاف پسند انسان کے لیے بھی بے حد تکلیف دہ تھے۔
2019 کے 5 اگست کو بھارت نے اس کا وہ اسٹیٹس بھی تبدیل کردیا ہے جو بقول اس کے بھارت اور کشمیر کے الحاق کی بنیاد تھا لیکن دیکھا جائے تو اس سے پہلے بھی بھارتی کشمیر دنیا کی نگاہوں میں "مقبوضہ " تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم میں جو اضافہ ہوا ہے اُس نے بھارت سمیت پوری دنیا کے اہلِ فکر ونظر کو چونکایا ہے اور حکومت پاکستان نے بھی کشمیریوں کی اخلاقی مدد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس کے لیے آواز اُٹھائی ہے اور برسوں بعد اقوام متحدہ میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپس کی سیاسی بیان بازیوں کی شدت کو کم کریں اور کشمیریوں کے حقِ آزادی کی جدوجہد اور اُن کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کو پامال نہ کریں اور اس یوم یکجہتی کشمیرکے موقعے پر کشمیریوں کے سا تھ اپنے آپ سے بھی یہ عہد کریں کہ ہم آخری دم تک یک سُو اور یک دل ہوکر اس تحریک میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں گے۔ کشمیر کے حوالے سے میری کئی نظمیں میرے شعری کلیات "میرے بھی ہیں کچھ خواب" میں موجود ہیں۔ انھی میں سے ایک اس یقین کے ساتھ آپ سے شیئر کرتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ دن دُور نہیں جب ہمارے کشمیری بھائی اس ظلم کے چُنگل سے آزاد ہوں گے۔
اے میرے کشمیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارضِ دلگیر
اپنی لہو سے تو نے لکھی جو روشن تحریر
بدلے گی اک روز اس سے دنیا کی تقدیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارضِ کشمیر
شمعِ وفا کے پروانوں کے تجھ پر لاکھ سلام
ظلم کی گہری کالی شب میں تو ہے صبحِ امام
تُو نے جہدِ حق کو دیا ہے ایسا اِک پیغام
جن کی نہیں نظیر
آزادی وہ خواب کہ جس کی آزادی تعبیر
اے میرے کشمیر…اے ارضِ دلگیر
تیرے لوَ سے روشن ہے اب شمع وفا کی تو
تو نے نئے عنوان دیے ہیں صبر اور ہمت کو
اللہ اور نبیؐ کی تجھ پر خاص عنایت ہو
ٹوٹے ہر زنجیر
بدلے گی اک روزتجھی سے دنیا کی تقدیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارضِ دلگیر