ممبئی کے علاقے سانتا کروز کے ایک قبرستان میں بالآخر اُس جسدِ خاکی کو سپردِ خاک کردیا گیا جس کا اصل نام تو یوسف سرور خان تھا مگر دنیا اُسے دلیپ کمار کے نام سے جانتی اور مانتی تھی۔
پاکستان کے مشہور سرحدی شہر پشاور کے ایک گھر میں تقریباً 98برس قبل پیدا ہونے والا یوسف خان کیسے اور کیونکر دلیپ کمار بنا، یہ اب کوئی راز نہیں کہ خود دلیپ صاحب سمیت اُن کے بہت سے سوانح نگار اس پر روشنی ڈال چکے ہیں۔
اصل میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تقریباً ستّر برس تک کیمرے کے سامنے رہنے کے باوجود دلیپ صاحب نے صرف 63فلموں میں کام کیا اور اس دوران میں وہ نسلوں اور زمانے کے فرق کے باوجود ہمیشہ پہلے نمبر پر رہے۔ پہلی نسل میں اُن کے ہم عصروں میں اشوک کمار، راج کپور، دیو آنند، بلراج ساہنی اور موتی لعل جیسے نامور لوگ شامل رہے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک "مکتبِ فکر" کی حیثیت رکھتا ہے مگر ترانہ، دیوداس، نیا دور اور مغل اعظم کا دلیپ کمار واضح طور پر ان سے بہتر اور منفرد نظر آتا ہے۔
1970 تک پہنچتے پہنچتے ہم عصروں کی اس فہرست میں دھرمیندر، راجیش کھنہ اور سب سے بڑھ کر امیتابھ بچن کا اضافہ ہوگیا جن کی مقبولیت نے بہت سے نئے ریکارڈ قائم کیے مگر اس دورمیں بھی دلیپ صاحب کا نام سب سے بلند رہا۔ نوّے کی دہائی میں شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان، رشی کپور اور انیل کپور نے دھوم مچانا شروع کی مگر جب تک دلیپ صاحب فلمی کیمرے کے سامنے آتے رہے، سبھوں کے سر اُن کے سامنے جھکے رہے۔
تین پوری نسلوں اور تقریباً ساٹھ برس تک پہلے نمبر پر رہنے کا یہ ریکارڈ شاید رہتی دنیا تک نہ ٹوٹ سکے کہ اگرچہ دنیا میں بڑے بڑے ہنروَر اورفنکار آتے رہیں گے مگر دلیپ کمار کی کیٹگری شاید صرف ایک ہی آدم زاد کے لیے بنائی گئی تھی۔
ذاتی طور پر بھی اُن کی ذات کے ساتھ میری بہت سی خوشگوار یادیں جُڑی ہوئی ہیں، اس تعلق کا آغاز توظاہر ہے اُن کی فلموں کے ایک ناظر کے طور پر ہی ہوا جو آہستہ آہستہ اُن کے فن کا مزید گرویدہ ہوتا چلا گیا مگر 1989 تک یہ تالی ایک ہی ہاتھ سے بجتی رہی اور شاید میں اُن کے مداحوں کے اُس وسیع ہجوم کا ایک بے نام سا چہرہ ہی رہتا اگر میرے اور اُن کے اسلام آباد میں مقیم مشترک د وست شیخ محمد وارث اُن کو میری شاعری کی کتابیں بطور تحفہ نہ بھجواتے یہ شیخ وارث وہی ہیں جن کے گھر پر پاکستان میں دلیپ صاحب قیام کرتے تھے اور جن کی معرفت ہمارے بہت سے حکمرانوں اور طاقت ور لوگوں کو دلیپ صاحب سے ملاقات کا موقع ملا اور جن کو دلیپ صاحب اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیر رکھتے تھے (کیسی بد قسمتی کی بات ہے کہ کچھ اور مسائل کے ساتھ ساتھ دلیپ صاحب کی اسی میزبانی کی وجہ سے شیخ وارث کو آگے چل کر ایک ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا کہ اب وہ گزشتہ بیس برس سے امریکا میں ایک طرح سے جِلاوطنی کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور ان حکمرانوں اور طاقتور لوگوں میں سے کسی نے بھی اُن کی مدد اور داد رسی نہیں کی)اس تکلیف دہ تفصیل کو یہیں چھوڑتے ہوئے میں دوبارہ اُس واقعے کی طرف آتا ہوں جو دلیپ صاحب سے میرے تعارف اور ملاقات کا بہانہ بنا۔
وارث کی بھیجی ہوئی کتابوں میں میری ایک زیادہ مقبول کتاب "ذرا پھر سے کہنا" بھی تھی ایک روز مجھے وارث صاحب کا فون آیا کہ دلیپ صاحب کو اس میں شامل ایک حمدیہ نظم بہت پسند آئی ہے اور وہ شاید اس سلسلے میں آپ سے بات بھی کریں گے کہ میں نے آپ کا نمبر اُن کو دے دیا ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی تو ہوئی مگر اُس وقت یہ گمان بھی ذہن میں نہ تھا کہ وہ سچ مچ مجھے فون کریں گے لیکن میری حیرت کی انتہا رہی جب کوئی دو دن بعد اُن کا ایک طویل فون آیا جس کے دوران انھوں نے متعلقہ حمد کی کئی لائنیں بار بار پڑھ کر سنائیں اور بہت دیر تک مجھ سے گہرے اور پرانے دوستوں کی طرح باتیں کرتے رہے۔
اُن کی آواز، اشعار کی پڑھت اور داد دینے کا انداز ایسے دلرُبا تھے کہ یہ احساس ہی نہ رہا کہ میں کسی فلمی اداکار سے باتیں کر رہاہوں۔ آہستہ آہستہ یہ واقعہ میری یادوں کا ایک حسین حصہ بنتا چلا گیا۔ کوئی ایک برس بعد میں لندن کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جارہا تھا، وارث کی زبانی پتہ چلا کہ اُنہی دنوں دلیپ صاحب بھی وہیں ہوں گے، میں نے یونہی رواری میں ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے جواب میں انھوں نے فوراً ہی مجھے اپنا وہاں کا پتہ ا ور فون نمبر بھجوا دیا۔ رابطہ ہوا تو کہنے لگے فوراً آجایئے۔
گزشتہ روز میں، میری بیگم فردوس، میرے ابتدائی دور کے ڈراموں کے اداکار عظمت نواز باجوہ جو اُن دنوں وہیں تھے اور میرا میزبان برادرعزیز مکرم جاوید سیّد جو بے نظیر کی دوسری حکومت کے دور میں نائجیریا میں پاکستا ن کا قونصل جنرل بھی رہا، آپس میں جمع ہونے اور ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے دیے ہوئے وقت سے کوئی پون گھنٹہ لیٹ پہنچے تو وہ کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
ہم نے تاخیر کی وجہ بتائی تو سُن کر کہنے لگے کہ اس پہلی ملاقات کے صدقے سب کچھ معاف ہے، اس کے بعد وہ تقریباً ایک گھنٹہ اتنی محبت اور اپنائیت سے شاعری، ادب، فلم، ڈرامے اور ہماری ذاتی دلچسپیوں کے بارے میں میں باتیں کرتے اور تصویریں بنواتے رہے کہ وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اتفاق سے عظمت باجوہ اپنے ساتھ ایک مووی کیمرہ بھی لائے تھے جو اُس زمانے میں بہت زیادہ عام نہیں تھے، سو وہ ریکارڈنگ میں لگے رہے، بعد میں انھوں نے یہ ریکارڈنگ یوٹیوب پربھی ڈال دی جس میں کہیں کہیں آڈیو کے کچھ مسائل ہیں مگر اب یہ ایک قیمتی یاد کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔
وارث نے انھیں میرا ایک ٹی وی سیریل "رات" بھی بھجوا رکھا تھا۔ شعرو شاعری کے علاوہ بہت دیر تک اس کے پلاٹ، کہانی اور افضال احمد کے کردار کی تعریف کرتے رہے اور جاتے جاتے انھوں نے دروازے پر بہت محبت سے دونوں ہاتھ میرے شانوں پر رکھتے ہوئے جو جملہ کہا وہ میری زندگی کی سب سے قیمتی اور حسین یادوں میں سے ایک یاد ہے۔ بہت محبت سے بولے، "یار کبھی ہمارے لیے بھی ایسا کوئی کردار لکھو۔"
اس بات کا پورا اور صحیح لطف لینے کے لیے، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جب کوئی ایسا شخص آپ کی تعریف کرے جس کے آپ ساری عمر خود مدّاح رہے ہوں تو یہ خوشگوار تجربہ آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ مجھے اس جملے کے جادو میں گرفتار کرکے دلیپ صاحب اب خود کسی اور ہی دنیا کے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ ایک شاندار انسان تھے اور انھوں نے زندگی بھی بہت شان سے گزاری ہے۔
آخری چند برسوں میں اُن کی صحت کے ساتھ آواز اور پہچان کی صلاحیت بھی بہت کم ہوگئی تھی لیکن جو کچھ وہ اس دنیا کو دے گئے اور ان کا کام اس طبعی موت کے بعد بھی انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ آخر میں لندن کی اس پہلی اور آخری ملاقات میں اُن کا پڑھا ہوا ایک شعر جس کی انھوں نے مجھے بہت داد دی تھی۔
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہُوا
یہ معجزہ تو مرے دستِ بے ہنر سے ہوا