اگر اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی اور تحریک انصاف کے رہنما مشتاق غنی نے عوام سے یہ کہا ہے کہ وہ دو کے بجائے ایک روٹی کھانے کے لیے تیار ہو جائیں تو وفاقی وزیر برائے آبی ذخائرفیصل واوڈا نے خوشخبری دی ہے کہ چند ہفتوں کی بات ہے پھر پاکستان میں خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی، نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی، کاروبار اتنا آسان ہو جائے گا کہ پان والا اور ٹھیلے والے بھی ٹیکس دے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال دیا ہے اور اب اگلے ڈیڑھ دو سال میں معیشت استحکام کے راستے پر گامزن رہے گی۔ جیسے ہر کوئی فیصل واوڈا کی یہ بات سمجھنے میں ناکام ہے کہ چند ہفتوں میں کہاں سے پاکستان میں خوشحالی ہی خوشحالی آ جائے گی، اسی طرح بڑے بڑے معیشت دان اسد عمر اور اُن کی پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب تو بین الاقوامی معاشی ادارے پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اُس کے مطابق تو مشتاق غنی کی وارننگ کو سنجیدگی سے لینا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں کیا عوام کو ایک روٹی کھانے کو مل جائے گی؟
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے ایک اخباری بیان کے مطابق تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اب تک تقریباً مزید چالیس لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ چکے ہیں جبکہ آنے والے حالات مزید بدتر ہوں گے۔ اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق نے بھی وارننگ دی ہے کہ پاکستان میں بیروزگاری میں بہت اضافہ ہوگا کیونکہ ترقی کی رفتار کو موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بہت کم کر دیا گیا ہے۔ اپنی تازہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو میں کمی اور بیروزگاری میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ 2019ء کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 2.9 فیصد اور آئندہ مالی سال میں 2.8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ بیروزگاری کی شرح 6.1 اور آئندہ مالی سال میں 6.2 فیصد رہے گی۔ آئی ایم ایف نے وسط مدتی عرصے کے دوران پاکستان کی اوسط اقتصادی شرح نمو 2.5 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2024ء میں پاکستان کی شرح نمو 2.5 فیصد ہو گی۔
آئی ایم ایف کی طرح عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے بھی تنبیہ کی ہے کہ پاکستانی معیشت 2 سال خراب رہے گی، پیداوار کم، مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ عالمی بینک نے جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی علاقائی رپورٹ بعنوان "ایکسپورٹ وانٹڈ" میں کہا ہے کہ مالی سال 2019ء میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.4 اور مالی سال 2020ء میں 2.7 فیصد رہنے کی توقع ہے، ہنگامی اصلاحات نافذ کی جائیں تو 2021ء تک پاکستانی معیشت کی شرح نمو 4فیصد تک ہو سکتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح خطے میں سب سے کم اور مہنگائی میں اضافہ ہونے کی پیشگوئی کر دی ہے۔ اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ترقی کی شرح اس سال کم اور اگلے سال مزید کم ہو گی، 2019ء میں شرح نمو خطے کی کم تر 3.9 فیصد پر رہے گی جبکہ 2020ء میں 3.6 فیصد ہوگی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
ان تمام بین الاقوامی اداروں اور اقتصادی امور کے ماہرین کی پیش گوئیوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے معاشی طور پر بدترین دن آنے والے ہیں۔ عام عوام کے لیے ایک طرف مہنگائی بڑھے گی تو دوسری طرف بیروز گاری اور غربت میں اضافہ ہو گا، یعنی لوگوں کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہوں گی۔ جب بیروزگاری بڑھے گی، غربت میں اضافہ ہو گا تو جرائم بھی بڑھیں گے۔ جن کو "چور، ڈاکو" کہتے ہیں، اُن کے دور میں ترقی کی شرح بہت بہتر اور مہنگائی کم تھی۔ نجانے یہ کیسے "اچھے" اور "قابل و ایماندار" آ گئے ہیں کہ بیروزگاری اور غربت میں اضافہ کر دیا ہے، مہنگائی انتہائوں کو پہنچا دی ہے اور ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بھی نہایت سست کر دی ہے۔ لوگوں نے تو امیدیں لگا رکھی تھیں کہ ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، اُن کی زندگیوں میں خوشحالی آئے گی، پاکستان معاشی طور پر ترقی کرے گا لیکن جو نظر آ رہا ہے وہ بہت مایوس کن اور تشویش ناک ہے۔ دعا ہے جو فیصل واوڈا نے کہا وہ سچ ثابت ہو لیکن ڈر ہے مشتاق غنی کی بات پوری ہونے جا رہی ہے اورخوف یہ ہے کہ کیا عوام کو ایک روٹی بھی ملے گی یا نہیں۔