Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aaj Kara Imtihan

Aaj Kara Imtihan

آ ج سینٹ کے انتخابات ہو رہے ہیں لیکن ماضی کے برعکس اس بار سینٹ کے طریقہ انتخاب کہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں یا کھلے بیلٹ کے ذریعے کے گہرے بادل سیاسی افق پر چھائے رہے، اس کی وجہ وہ صدارتی ریفرنس تھا جس میں سپریم کورٹ سے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی رائے مانگی گئی تھی۔ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ بیلٹ سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔ واضح رہے کہ 25 فروری کو عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنی رائے کو محفوظ کر لیا تھا جو پیر کو سنا دی گئی۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ ایوان بالا کے انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے آ ئین کے آ رٹیکل 226کے تحت کرائے جائیں تاہم حکومتی وزرامتذکرہ فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں، غالبا ً یہ لائن حکومت نے اپنی سبکی مٹانے کے لیے اختیار کی ہے۔ عدالت نے رائے میں لکھاہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ دیانتداری، منصفانہ اور شفاف انتخاب یقینی بنائے، الیکشن کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئینی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سمیت تمام دستیاب اقدامات اٹھائے تاکہ بد عنو انی پر مبنی ہتھکنڈ ے استعمال نہ کئے جا سکیں۔ اسی فقرے کو لے کر حکومتی حلقے بغلیں بجا رہے ہیں کہ یہ ان کی فتح ہے اور اپوزیشن کے لوگ سپریم کورٹ کی رائے پڑھے بغیر ہی مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے حسب روایت اپوزیشن پر فقرہ کسا ہے کہ سیاسی بلونگڑے جشن منا رہے ہیں حالانکہ انہیں جلد ہی صف ماتم پر بیٹھنا پڑے گا۔ جو کچھ بھی ہوا، حکومت کی یہ خواہش پوری نہ ہونا کہ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرا ئے جائیں اس کیلئے یقینا ایک سیٹ بیک ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ الیکشن کمیشن صاف وشفاف انتخابات کرائے گا اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جدید ترین ٹیکنالوجی بروئے کار لائے گا یہ الیکشن کمیشن کے آئینی مینڈیٹ میں بھی شامل ہے اور چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی عدالت عظمیٰ کو یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ یہ الیکشن انہی ہدایات کے مطابق ہونگے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک دن کے نوٹس پر ایسی کون سی جدید ٹیکنا لوجی بروئے کار لائی جا سکتی ہے جس سے یکدم سینٹ کے اند ر ماضی میں ہو نے والی روایتی بے قاعدگیوں کا آج ہونے والے انتخابات میں یکسر خاتمہ ہو سکے، لیکن حکومتی حلقوں کے لیے دل کے بہلانے کو یہ خیا ل اچھا ہے۔

عملی طور پر سینٹ انتخابات میں ما ضی کی روایات کا اعادہ پہلے ہی ہو چکا ہے اور یہ بھی حکومت کے ایک بڑے اتحادی کے ہاتھوں، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب سے نشستوں کی تقسیم ایسے انداز سے کی کہ ایک نشست تو اپنی جما عت کے لیے لے لی اور باقی نشستیں حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان میں ان کی عددی اکثریت کے مطابق برابر تقسیم کردیں۔ اسی طرح کا ڈرامہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں بھی رچانے کی سعی کی گئی۔ سینٹ انتخابات کا ایک اور پہلو جو ملک بھر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے درمیان مقا بلہ ہے۔ پی ڈی ایم کو امید ہے کہ دس بارہ ارکان بھی حکومتی اتحادسے ادھر سلپ ہو جائیں تو حفیظ شیخ کی شکست یقینی ہو جائے گی۔

دوسری طرف سند ھ جہاں پیپلز پارٹی حکومت اور پی ٹی آئی کی اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے وہاں جوڑ توڑ بھی زوروں پر رہا۔ ایم کیوایم اور جی ڈی اے کے ووٹ توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جہاں تک جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا کا تعلق ہے، وہ یوسف رضا گیلانی کے قریبی عزیز ہیں اور عزیزداری کا یہ کارڈ بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ پیشگوئی کر دی ہے کہ سینٹ کے انتخاب میں بڑے سرپرا ئز ہو نگے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی ممکنہ شکست جس کو پی ڈی ایم پہلے ہی حکومت کے خلاف عملی طور پر عدم اعتماد قرار دے رہی ہے افورڈ کرسکیں گے۔ شاید اسی لیے وزیر اعظم عمران خان کو خود بھی سینٹ کے انتخابات کے لیے متحرک ہونا پڑا اور پوری ٹیم کو اس طرف جوت دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی جماعت جو عام انتخابات میں راست بازی کے اصولوں کا پرچار کرتی تھی سینٹ کے انتخابات میں اس کے اپنے ارکان اور اتحادی ان حالات میں خود بھی قائم رہتے ہیں۔

سینٹ کے نتائج کچھ بھی ہوں، یہ بات کسی حد تک وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایوان میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی لیکن اپوزیشن کی پارلیمنٹ اور صوبوں میں موجود طاقت کے پیش نظر مجموعی طور پر اکثریت حاصل کرنا قریباً ناممکن نظر آتا ہے، حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کی برابر نشستیں ہونے کا امکان ظاہر ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے یہ سینٹ الیکشن حکومت کے سیکرٹ بیلٹ ختم کرانے کی کا وشوں کے سائے تلے ہو رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آ ج اپوزیشن کا یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب اس لیے سیکرٹ بیلٹ ختم کرنا چاہتے تھے کہ انہیں اپنے ارکان اور اتحادیوں پر اعتبار نہیں تھا کہ وہ ساتھ دیں گے یا نہیں، یا وہ اپنی حکمت عملی کی کامیابی پر مہر لگوالیں گے۔