Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Broadsheet Ka Naya Qazia

Broadsheet Ka Naya Qazia

برطانوی فرم براڈ شیٹ جس کا بظاہر کام غیر قانونی طریقے سے بنائے گئے اثاثوں کی چھان بین اور بازیابی ہے، آج کل موضوع سخن بنی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جولائی 2000 میں انگیج کی جانے والی اس فرم کے ساتھ معا ہدہ 2003میں ختم کردیا گیا تھا۔ اس فرم کے ساتھ دوسو شخصیا ت کے اثاثوں کی چھان بین کا معاہدہ کیا گیا تھا جن میں شریف فیملی کے علاوہ کئی دیگر سیاستدان، بیورو کریٹس اورجرنیل بھی شامل تھے لیکن جب نواز شریف اور ان کا خاندان سعودی عرب کے توسط سے اس وقت ہونے والے معاہدے کے تحت دس سال کی مدت کے لیے جلا وطنی میں جدہ چلا گیا تو اس کے بعد براڈ شیٹ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر برطانوی عدالت میں حکومت پاکستان پر کیس کر دیا جو اس نے جیت لیا اور اب اس فرم کو تحریک انصاف کی حکومت نے مجموعی طور پر سات ارب کی خطیر رقم ادا کر دی ہے۔

ویسے تو ہم غریب ملک ہیں لیکن بین الاقوامی فورمز اور عدالتوں میں مہنگے وکیل رکھ کر بھی کیس ہارنے کی صورت میں جرمانے اور ہرجانے دینے میں بڑے فیاض ہیں خواہ وہ ریکوڈک ہو یا براڈ شیٹ کیس۔ ہما رے وزیر اعظم عمران خان اس بارے میں بڑے واضح ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کی کرپشن اور منی لانڈرنگ پہلے پاناما اور اب براڈ شیٹ نے بے نقاب کردی ہے۔ پاناما پیپرز میں ان لوگوں کے نام تھے جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی تھیں اور اس میں شریف فیملی کی آف شور کمپنیاں محل نظر تھیں لیکن براڈ شیٹ نے فی الحال ایسے کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دئیے جس کی بنا پر کہاجاسکے کہ فرم نے پاکستان کے کر پٹ لوگوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

فی الحال تو براڈ شیٹ کے اس قضیئے سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ احتساب بھی ہمارے حکمرانوں کے نزدیک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اس فرم کے چیف ایگزیکٹوآفیسر کاوے موسوی نے ایک یو ٹیوب چینل کے ساتھ اپنے تازہ انٹرویو میں انکشا ف کیا ہے کہ انجم ڈار نامی شخص بطور نواز شریف کے ایلچی ان کے پاس آیا اور شریف فیملی کے خلاف تحقیقات روکنے کیلئے اڑھائی کروڑ ڈالر کی پیشکش کی۔ موسوی کا دعویٰ ہے کہ ان کے پا س دیگر کئی پاکستانیوں کی کرپشن کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 2000میں نواز شریف کے جدہ چلے جانے کے بعد جب یہ معاہد ہ منسوخ ہو گیا تھا تو2012میں شریف فیملی کانام نہاد ایلچی موسوی کو کیونکر ایسی پیشکش کر رہاتھا؟ ۔ مقام شکر ہے کہ براڈ شیٹ نے یہ تردید کر دی ہے کہ مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے بھی کک بیکس مانگی تھی لیکن اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ براڈشیٹ کے غبارے میں بھی شہزاد اکبر پھوک بھر رہے ہیں لیکن باسی کڑی میں یہ ابال بلا مقصد نہیں ہو سکتا اور ایسا لگتا ہے کہ موسوی نہ صرف پبلسٹی کے شوقین ہیں بلکہ وہ دوبارہ کسی نئے معاہدے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ حکومت پاکستان بھاری رقم بطور جرمانہ انہیں پہلے ہی اد ا کر چکی ہے۔ اس معاملے میں اب پانچ رکنی وزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے دیکھئے وہ کیا گل کھلاتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے براڈشیٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ سے ازخودنوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: نیب نے اس ملک کا پیسہ لوٹنے والوں کو این آر او دیا، دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والا ادارہ نیب آج خود کٹہرے میں کھڑا ہے، براڈ شیٹ کا معاملہ معمولی بات نہیں، اس کی مکمل تفصیل نیب کی کہانی ہے کہ آج سے 20 سال پہلے نیب کیا کررہا تھا اور آج کیا کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کیا نیب کے پاس کوئی جواب ہے کہ جو اس نے 7 ارب روپے دئیے اس سے انہیں کیا ملا، آج حقیقت یہ ہے کہ جو فیصلہ برطانیہ کی عدالت نے دیا ہے حکومت پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ اس فیصلے کو عوام کے سامنے رکھے، وہاں سے آپ کو حقیقت ملے گی کہ ہوتا کیا رہا ہے اور نیب کرتا کیا رہا ہے۔ براڈ شیٹ کے بانی نے نیب کے اعلیٰ افسروں، موجودہ حکومت کے لوگوں اور اداروں پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ مجھ سے پیسے مانگتے رہے، یہ معمولی الزام نہیں ہے، حقائق برطانیہ کی عدالت کی رپورٹ میں ہیں، ان پر کارروائی ہونی چاہیے، حکومت خود اس کرپشن میں شامل ہے۔

جہاں تک برا ڈ شیٹ کا تعلق ہے، اس سے بظاہر جنرل پرویز مشرف دور میں کئے گئے معاہدے کا مقصد حقیقی احتساب نہیں تھا بلکہ کچھ لوگوں کے خلاف مواد اکٹھا کر کے انہیں بلیک میل کرنا اور ان کی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرانا تھا اور ایسا ہی ہو ا۔ میاں نوازشریف تو اپنے اہل وعیال سمیت این آر او لے کر جدہ پدھار گئے تھے جبکہ دیگر سیاستدانوں اور بیوروکر یٹس کی بھی این آر او کے ذریعے ہی خلاصی ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا کہ اشرافیہ اب انتقامی کارڈ کے پیچھے نہیں چھپ سکتی۔ بات اصولی طور پر بجا ہے کہ ماضی میں احتساب کے نام پر انتقام ہی حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے جس میں نوازشریف کے دور میں سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب بیور و بھی شامل ہے۔ یہی صورتحال موجودہ دور حکومت میں بھی ہے۔ ایمانداری، راست بازی، شفافیت کا بہت چرچا ہوتا ہے لیکن کوئی بھی ذی ہوش شخص یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے کیونکہ وطن عزیز میں نام نہاد احتساب شفاف ہے اور نہ ہی منصفانہ، لیکن حکمران جماعت کو سب سے پہلے تو اپنا احتساب کرنا چاہیے تھا۔ مثال کے طورپر حکومت کی جوابدہی کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس بڑے دلچسپ ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے وفا قی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا اسلام آباد ہا ئیکورٹ میں 16پیشیاں بھگتنے کے باوجود اپنی دوہری شہریت نہ ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے جس پر جسٹس عامر فاروق نے فیصل واوڈا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جواب داخل کرانے سے کیوں شرما رہے ہیں؟ آپ کے موکل کا کنڈکٹ درست نہیں، جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے اپنے نتائج ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، کہتے ہیں کہ عدالتیں کام نہیں کرتیں، مورخ دیکھے تو لکھے کہ عدالتوں میں کیا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دوہری شہریت کا معاہدہ نہیں ہے اور امریکی پاسپورٹ ہولڈر پاکستان میں وزیر نہیں بن سکتا۔ اس سے پہلے کہ عدالت نشاندہی کرے خان صاحب کو اس معاملے میں پاکستانی آئین اور قانون کی روشنی میں قدم اٹھانا چاہیے۔ دوسری مثال معروف قانون دان نعیم بخاری کی ہے جو تحریک انصاف کے بہت قریب ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نعیم بخاری کو بطور چیئرمین پی ٹی وی کام سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے عمر کی حد میں نرمی کی؟ جس پر وزارت اطلاعات نے جواب دیا کہ جی سر، عمر کی حد میں نرمی کی گئی ہے جس پرجسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے خود ہی نعیم بخاری کا چیئرمین پی ٹی وی تقرر کر کے سمری کابینہ کو بھجوا دی، وزارت اطلاعات چیئرمین پی ٹی وی کی تقرری کی مجاز نہیں ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا جس میں واضح لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کسی کو چیئرمین نہیں بنا سکتی، آپ فیصلہ پڑھے بغیر سمری کابینہ کو بھیج کر کابینہ کو بھی شرمندہ کریں گے، نعیم بخاری ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن کوئی قانون سے بالاتر نہیں، انہوں نے مزید کہا عدالت عمومی طور پر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت اس تعیناتی کو کالعدم نہیں کر رہی، تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں تاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

سب سے دلچسپ کیس تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کافارن فنڈنگ کا ہے۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی جانب سے دئیے گئے سوال نامے کے تحریری جواب میں بظاہر امریکا سے غیر قانونی فنڈنگ سے انکار کے مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے پی ٹی آئی نے اب یہ وضاحت پیش کی ہے کہ اگر عمران خان کی تحریری ہدایت کے بعد رجسٹرڈ ہونے والی دو امریکی کمپنیوں نے کوئی فنڈز غیر قانونی طور پر اکٹھے کئے ہیں تو اس کی ذمہ داری ان کمپنیوں کا انتظام سنبھالنے والے ایجنٹس پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن اس استدلال کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے لیکن ایک ایسی جما عت جو نیکی، راست بازی اور ایمانداری کے بھا شن دیتی رہتی ہے اس کو اس قسم کی تکنیکی اور قانونی موشگافیوں کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے۔ جب اپوزیشن یہ شور مچاتی ہے کہ نیب کے قانون میں احتساب کے عمل کو غیر جانبدار بنانے کے لیے ترامیم کی جائیں توان پر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ یہ این آر او مانگ رہے ہیں حا لانکہ اگر یہی بات ہے تو حکومت کو خو د نیب کے قانون میں ترامیم کر دینی چاہئیں۔