تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہو گئے۔ حکومت اس عرصے کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 ارب 22 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ دو سال قبل مالی سال 2018ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 19 ارب 19 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی سطح پر تھا جو اب کم ہوکر 2 ارب 96 کروڑ 60 ڈالرز رہ گیا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں پھوٹنے والی وبا کووڈ 19جس نے اب بھی دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حکومت نے ابتدائی غلطیوں کے باوجوداس سے نبٹنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے، ہمارے بعض ہمسایہ ممالک کی نسبت یہاں کورونا کا بدمست ہاتھی قابو میں آ گیا ہے۔ پاکستان میں اب تک قریباً 2 لاکھ 90 ہزار افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ان میں سے 2 لاکھ 70 ہزار سے زائد اس سے شفایاب ہو چکے ہیں، یقینا یہ حکومتی مؤثر حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس پر حکمران مبارکباد کے مستحق ہیں۔ حکومت کئی ممالک سے تجارتی تعلقات مستحکم کرنے اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔
حسب توقع حکومتی کا ر پردازان اوران کے حواری فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اپنے قائد عمران خان کی لیڈر شپ پرمبارک سلامت کے ڈونگڑے برسا رہے ہیں لیکن وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اپنے ایک بیان میں سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے دعویٰ کیا ہے کہ ابھی ہم اپوزیشن کی تباہ کاریوں سے نبٹ رہے ہیں، سارے مسائل ختم کر کے عوام میں جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا گزشتہ دو برس میں بیانیہ یہی ہے کہ ہم تبدیلی کے پیامبر ہیں اور سابق حکومتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بے تدبیریوں اور نااہلیوں کو ٹھیک کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یہ بیانیہ کچھ پٹ سا گیا ہے۔ گزشتہ برس حکومت کے اپنے مقرر کردہ اہد اف کی روشنی میں کسی بھی شعبے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ معاملات رجعت قہقری کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت کاسب سے بڑا نعرہ کرپشن کا خاتمہ اور احتساب تھا لیکن عملی طور پر ماسوائے اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیسز کی بھرمار جن میں سے ناقدین کے مطابق اکثر میں سے انتقام کی سرانڈ آتی ہے اور نیب کی احتساب کے بجائے انتقام کی روش کے بارے میں اعلیٰ عدالتوں، بین الاقوامی اور انسا نی حقوق کے اداروں اور اپوزیشن کی طرف سے نکتہ چینی کے باوجود ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ احتساب کے ادارے کے بنائے گئے کیسز کی بھرمار کے باوجود کسی ایک اپوزیشن رہنما کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ دوسری طرف حکمران جماعت کے اکثر رہنما جن میں بہت سے کئی پا رٹیوں کا طواف کر کے پی ٹی آئی میں پہنچے ہیں یا اس کے اتحادی ہیں زبانی جمع خرچ کے سوا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایک طرف دہائی دی جاتی ہے حکومت نیب کے قوانین میں ترمیم کے حق میں ہے لیکن دوسرے ہی سانس میں خان صاحب یہ کہہ کر میں چوروں اورڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا، اس حوالے سے اپوزیشن سے بامقصد بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیب کی یکطرفہ کارروائیوں کا ایک نمونہ گزشتہ ہفتے محترمہ مریم نوازشر یف کی لاہور نیب میں پیشی اور پیر کو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے روا "حسن سلوک" کو دیکھا جا سکتا ہے۔
حکومت کی ایک اور بڑی ناکامی اکانومی کے شعبے میں نظر آتی ہے۔ اقتصادیات کا کوئی بھی شعبہ لیں، تنزلی کی طرف ہی جا رہا ہے۔ شرح نمو میں جو اس حکومت کے برسراقتدار آنے کے وقت 5.8 تک پہنچ چکی تھی، پاکستان کی تاریخ میں کئی دہائیوں کے بعد منفی میں آگئی ہے۔ برآمدات میں معمولی اضافے کو بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں اس خطے میں برآمدات میں اضافے کی شرح عمومی طور پرسب سے کم ہے۔ یہی حال ٹیکسوں کی وصولی کا ہے، ویسے بھی ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ نہیں ہو پایا۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قریباً 170روپے تک پہنچ گیا ہے لیکن جیسا کہ گلاس آدھا خالی ہو یا بھرا ہوا، وزیراعظم سمیت حکومتی عمائدین یہ کہہ کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہے ہیں کہ اکانومی تیزی سے ترقی کر رہی ہے لیکن عوام کو اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے سے کوئی سروکار نہیں، ان کا سیدھا سادا سوال ہے کہ ہماری زندگی دو برس پہلے بہتر تھی یا اب؟ ۔ اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہو گا۔ پٹرول کی قیمت ہو، بجلی کے ریٹس ہوں، اشیائے خورونوش، ادویات کی قلت یا قیمتیں ہوں کسی طریقے سے بھی عوام کو ریلیف نہیں ملا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہماری حکومت پوتر اور ایماندار ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی اپنی ذات کی حد تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن وزیروں اور مشیروں کی کرپشن اور نااہلی کے نئے نئے سکینڈل زبان خاص وزدعام ہیں۔
گورننس کا حال بھی خاصا پتلا ہے، حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ پاکستان ایک آزاد معیشت ہے یا کنٹرولڈ۔ حکومت کے مطابق یہاں مافیاز کا راج ہے۔ چینی مافیا، گندم وآٹا مافیا، پٹرول مافیا کا رونا اقتدار کے ایوانوں سے اکثر رویا جاتا ہے، حسن کارکردگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے شوگر ملز مالکان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے شوگر انکوائری کمیشن اور انکوائری رپورٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کمیشن کی رپورٹ، ایکشن پلان اور مشیر احتساب و داخلہ کی جانب سے متعدد اداروں کو بھیجے گئے خطوط سے درخواست گزاروں کے لیے تعصب کا اظہار ہوا۔ چنانچہ 16 مارچ کو نافذ کردہ نوٹیفکیشن اور 21 مئی 2020ء کو جاری کردہ رپورٹ اور اس کے تحت اٹھائے گئے بلواسطہ یا بلاواسطہ اقدامات اور احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لہٰذا عدالت مذکورہ رپورٹ اور ان تمام احکامات اور اقدامات کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ لیکن مشیر احتساب شہزاد اکبر کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا یہ ہے کہ اپوزیشن کو روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے دیوار کیساتھ لگایا جائے۔ کچھ اسی قسم کا ایک اور مافیا بھی ہے یعنی پا ور سیکٹر مافیا۔ ملک میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد مانگ سے کچھ زیا دہ ہی ہے جس کا کریڈٹ مشیر تجارت رزاق داؤد نے اپنے حالیہ بیان میں نواز شریف کو دیا ہے۔ اس کے باوجود شدید گرمی اور حبس میں عوام کو کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ بجلی کے گردشی قرضے 30 جون 2020ء تک 2150 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ عملی طور پر یہ سیکٹر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کرنے کی نوید حال ہی میں سنائی گئی ہے اور ساتھ ہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بجلی کے ریٹس نیچے آ رہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
حکومت کا ایک بڑا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وفاقی وزرا اور مشیران ایک دوسرے کے سا تھ ہی گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزرا ایسے معاملات میں جن سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں بے تکے بیانات داغ دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے ہی کابینہ کے سا تھیوں پر کڑی تنقید کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی کو سعودی عرب کے بارے میں بیان کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا۔ محترمہ اتنے غصے میں تھیں کہ انہوں نے قریشی صاحب کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کو بھی رگڑا لگا دیا۔ وزارت خارجہ کے حکام سرکاری ملازمت کی وجہ سے محترمہ کے بیان کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خارجہ پالیسی کا حال اتنا پتلا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں ترکی اور چین کے سوا کوئی ہمارا ہمنوا نہیں ہے۔ دوسری طرف بھارت اورنریندر مودی کا ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ہنی مون عروج پر ہے، بھارت امریکہ اور روس کا سٹرٹیجک حلیف ہے۔ اسی طرح فواد چودھری اپنے بیانات کے ذریعے ہر اس معاملے میں پھڈا ڈالتے ہیں جس کا ان کی وزارت سے کوئی تعلق نہیں۔ شیخ رشید جن کے دور میں ریلویز متعدد سنگین حادثات، کوتاہیوں، نا اہلیوں اور ریکارڈ خسارے میں جا رہا ہے اپنی بے سروپا پیش گوئیوں جن کا اکثر حقیقت سے بہت کم تعلق ہوتا ہے کے ذریعے اپوزیشن کو رگڑا لگاتے رہتے ہیں۔ ڈسپلن کے فقدان کی بنا پر خان صاحب کی ٹیم نہیں بن پائی۔ یہ موقع اچھا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی سمت اور اہداف پر سنجیدگی سے نظرثانی کرے۔