کراچی میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بھرپور احتجاج پر وزیراطلاعات، سینیٹر شبلی فراز کا تبصرہ دلچسپ ہے، ان کے مطابق گوجرانوالہ کے جلسے کے برعکس کراچی میں شو ہے لیکن پاور نہیں ہے، اتنا بھی غنیمت ہے کہ شبلی فراز کو یہ توماننا پڑا کہ اپوزیشن کا کراچی کا اپنے حجم کے لحاظ سے بہت بڑا شو تھا۔ لگتا ہے حکومتی زعما نے ابھی تک شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے ہی حکومت چلی جائے گی لیکن روایتی طور پر اپوزیشن کی بھرپور یلغار سے حکومتیں کمزور ہوتی ہیں۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، جوں جوں اپوزیشن کی یہ تحریک زور پکڑے گی حکومت کے لیے گھاٹے کا سودا ہو گا، اسی لیے بہتر یہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی معاملات حل کیے جا ئیں لیکن اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کوئی بنائے اتحاد نہ ہو تو مذاکرات کرنا قریبا ً ناممکن ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ تیسرا فریق حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لے آئے لیکن اس کے بھی امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ ابھی تو حکومتی زعما کاتمام تر انحصا ر اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن بزور بازو حکومت کو گرانے کے درپے ہے۔
وطن عزیز میں جمہوریت کی گاڑی رک رک کر چلتی آ رہی ہے اور دھکے سے منزل کی طرف رواں دواں رہی ہے۔ کہنے کو تو یہاں جمہوریت کا دوردورہ ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ سب کومعلوم ہے کہ طاقت کا منبع کون اورفیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کراب تک سلطانی جمہو ر کے دور کی صبح شاذ ہی طلوع ہوئی ہو۔ جمہوری نظام میں حکومتیں گرائی نہیں جاتیں بلکہ منتخب کی جاتی ہیں اور پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی طور پر انہیں گھر بھیجنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن جمہوری ہے۔ اگرچہ اپوزیشن میں تجربہ کار اور انتہائی گھاک قسم کے سیاسی رہنما موجود ہیں جن میں مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل اور ڈاکٹر عبد المالک جیسے لیڈر شامل ہیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف کئی مرتبہ حکومتوں کے مزے لوٹ چکے ہیں لیکن جب سے تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے حکومت کا بیانیہ چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا، واپس لاکر جیل کی سی کلاس میں بند کرونگا تک محدو د ہو کر رہ گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان بصدشوق اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کریں لیکن انہیں عوام کی فلاح وبہبود کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس وقت تو اقتصادی صورتحال اتنی خراب ہے کہ مہنگائی، معاشی بدحالی اور بدانتظامی کی وجہ سے عوام کا بھرکس نکل چکا ہے لیکن شومئی قسمت حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ خان صاحب کے مشیروں کو اس بات کا قطعا ً ادراک نہیں ہے کہ محض سطحی اقدامات سے پرپیچ اور گنجلک اقتصادی مسائل حل نہیں کئے جا سکتے۔ نام نہاد ٹائیگرفورس کو سرکاری مشینری کی طرح ادارے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ جب تک اکانومی کے بنیادی جزئیات کی درست سمت متعین نہیں ہو گی بہتری کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔
اتوار کو مریم نواز کی مزار قائد پر حاضری کے موقع پر ان کے شوہر نے قبر کے اطراف لگی جا لیوں کو عبور کر کے اندر داخل ہو کر"ووٹ کو عزت دو " کے سیاسی نعرے لگوائے جس پر وفاقی حکومت کی وزارتی ٹیم نے شدید ردعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزار قائد پر نعرے لگوانا قابل قبول نہیں، ضابطے قوانین اور سماجی اقدار کی پامالی کرنے پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ اسی رات پولیس کی جانب سے بانی پاکستان کے مزار کے تقدس کو پامال کرنے کے الزام میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور اگلے روز صبح صبح کیپٹن(ر) صفدر کو ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا، بعد ازاں ان کی ضمانت ہو گئی۔
مزار قائد پر طوفان بدتمیز ی انتہائی افسوسناک ہے اور اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ذمہ داروں کو قوم سے غیرمشروط معذرت کرنی چاہیے۔ تاہم اس افسوسناک واقعے کی آڑ میں مسلم لیگ (ن) کو بطور سیاسی جماعت مطعون کرنے کی مہم چلانا بھی مناسب نہیں ہے۔ ایک شخص کے ناپسندیدہ فعل کو پوری پارٹی پر تھونپ دینا درست نہیں۔ کیپٹن(ر) صفدر کے لاابالی پن کی وجہ سے پہلے بھی پارٹی کو کئی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسے بھی مزار قائد پر نعرے بازی قائداعظم کی مسلم لیگ ہونے کے دعویداروں کو زیب نہیں دیتی۔ پنجاب کے وزیراطلاعا ت فیاض الحسن نے کہا کہ مزار قائد کی دانستہ بے حرمتی کامنطقی انجام کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری ہی تھا لیکن اس کے سا تھ ہی بیگم صفدر کو بھی بانی پاکستان کے مزار کی بے توقیری پر گرفتار کیا جائے۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے دیگر مرکزی قیادت کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ 'رینجرز نے ان کے کمرے پر دھاوا بولا اور ان کے کمرے کا دروازہ توڑا، کیا ہمارے معاشرے میں کسی خاتون کی یہ حرمت ہے، اس طرح کی حرکت دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں ہوسکتی، ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم ایک مہذب قوم ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا آئی جی پولیس نے اپنے گھر میں کوئی بھی اقدام سے انکار کیا تو انہیں اغوا کیا گیا، مقتدر قوتوں کے دفتر میں انہیں یرغمال رکھ کر ان سے زبردستی ایف آئی آر درج کرائی گئی، اب بتائیں ملک میں حکومت کس کی ہے؟ ۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ قریبی لوگوں کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش کے بجائے اگر ہمت ہے تو مجھے گرفتار کریں۔ ، اگر کسی نے کراچی میں صفدر کو گرفتار کرکے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) یا پی ڈی ایم میں دراڑ آجائے گی تو آپ ناسمجھ اور بے وقوف ہوسکتے ہیں لیکن ہم بچے نہیں ہیں اور سب سمجھ آرہا ہے کہ یہ کیا کھیل کھیلا گیا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے؟ ۔ فر یقین کو تحمل سے کام لینا چا ہیے، پکڑ دھکڑ، تحریکیں چلانے کے شوق سے نکل کر سیاسی مذاکرات کی طرف آئیں۔
وفاقی وزراء نے درست کہا ہے کہ سرکا ری خرچ پر تقریریں حکومت نہیں گراسکتیں لیکن اپوزیشن کے اتنے بڑے جلسے دیکھ کر حکومتی زعما کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ یقینا حکومت کی نصف مدت پوری ہو چکی ہے اور اب جو صورتحال نظر آ رہی ہے باقی مدت بھی محاذآرائی اور خراب گورننس میں گزر جائے گی۔ حکومت کی طرف سے کسی بہتر کارکردگی کے امکانا ت معدوم ہو چکے ہیں۔ جمہوری عمل بھی ایک قدم آ گے اور دو قدم پیچھے جا رہا ہے۔ سیاسی نظام اور انتظامی معاملات اتنی شد ید محاذآرائی کے ماحول میں آگے نہیں بڑھ پائیں گے اور جمہوریت کے نام پر ہی جمہوری اداروں کا ڈبہ گول ہونے کا خدشہ ہے۔