بارشوں کی آفت کی وجہ سے کراچی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سیاست بھی عجیب کھیل ہے جس میں آج کا دشمن کل کا دوست بن جاتاہے۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جو عرصہ دراز سے بیک سیٹ لئے ہوئے تھے یکدم فعال ہو گئے ہیں۔ کرا چی کے حالیہ دورے میں وہ اچانک پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملنے کے لیے ان کی اقامت گاہ پر پہنچ گئے۔ شہبازشریف کے لیے آصف زرداری سے ملنا پل صراط عبور کرنے کے مترادف تھا۔ ان کے ناقدین بالخصوص تحریک انصاف کے بھونپوؤں نے ان کے خوب لتے لئے ہیں۔ اکثرٹی وی چینلز پرانے کلپ دکھاتے رہے جس میں شہبازشریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے ڈائس پر مکے مارتے اور مائیک توڑتے ہوئے پرجوش انداز میں کہتے دکھائی دیتے ہیں "میں نے زر بابا اور ساتھیوں کو نہ لٹکایا تو میرا نام بدل دینا"۔ وزیراعظم عمران خان سمیت اکثر سیاستدان حسب ضرورت اس قسم کی ڈینگیں مارتے رہتے ہیں جن کا مقصد اپنے حواریوں کو گرما کر وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ تاہم برادر خورد کا دورہ کراچی اور آصف زرداری سے ملاقات خاصی سیا سی اہمیت کی حامل ہے۔
شہبازشریف کا زرداری ہاؤس پہنچنے کا راستہ خاصا پُرپیچ اور پیچیدگیوں سے بھرپور تھا، اپنے برادر اکبرکے مقابلے میں سیاسی طور پر زیا دہ لچک دار ہیں، وہ بھی بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف اپنے سیاسی کیریئر کے دوران انتہائی تندوتیز جملے ادا کرتے رہے ہیں اور بھٹو خاندان کو اپنے ادوار اقتدار میں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا یا لیکن2006ء میں جب لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان میثاق جمہوریت پرد ستخط ہوئے تو اس کے بعد سے میاں صا حب کی اس حوالے سے شعلہ نوائی کچھ ماند پڑ گئی اس کے باوجودمیاں صاحب پیپلزپارٹی کو اپنا حریف سمجھتے رہے ہیں۔ میموگیٹ کیس میں تو وہ وکیل کی وردی پہن کر زرداری صا حب کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے تھے۔ یا رلوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ نواز شریف جب پچھلی بار وزیراعظم تھے تو انہوں نے جون 2015ء میں سابق صدر کے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا لیکن آصف زرداری کے اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد اس وقت کے مقتدر حلقوں کے مشورے پر دعوت نامہ اچانک منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی آصف زرداری اور میاں نوازشریف کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ بعداز خرابی بسیار نوازشریف نے لندن میں آصف زرداری سے ملنے کی بھرپور کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین لندن میں موجود ہونے کے باوجود انہیں طرح دیتے رہے۔ اسی دوران لندن میں میری زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پیغام دیا کہ میاں صاحب سے کہیں کہ وہ مغل اعظم کے بجائے وزیراعظم بنیں۔
شہبازشریف کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ پیپلزپارٹی سے سلسلہ جنبانی بڑھانے کے نظریاتی طور پر (اگر سیاستدانوں کا کوئی نظریہ ہوتا ہے) مخالف رہے ہیں۔ جب نواز شریف نے 1993ء میں صدر غلام اسحق خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو انہوں نے اس وقت معتوب بے نظیر بھٹو کی طرف تعاون کا ہا تھ بڑھا یا لیکن ا س وقت شہبازشریف نے اپنے والد محترم کی مدد سے نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان کراچی میں ظہرانے پر ملاقات کے طے شد ہ پروگرام کو سبوتاژ کر دیا۔ یقینا حالیہ دورے میں شہبازشریف کے لیے آصف زرداری کے در پر حاضری دینا ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ ایک طرف بھا ئی جان کا حکم تھا کہ مونچھ نیچی کر کے زرداری صاحب سے ملیں جبکہ دوسری طرف وہ قوتیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان برف پگھلنے کی مخالف ہیں ان کو ناراض کرنا شہبازشریف کے لیے مشکل فیصلہ ہے۔ نوازشریف کی نئی ہدایات کے تحت ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی یکدم فعال ہو گئی ہیں اوران کے لاہور اور اسلام آباد میں حواریوں کے انٹرایکشن، جوش وخروش صدر مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ پیغام تھے کہ کیا کروں؟ نیم دروں نیم بروں کی روش اپنائے رکھی تو مسلم لیگ ن کی سیاست سے آؤٹ ہو جائیں گے۔
اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر بھارہ کہو اور اس سے پہلے نیب دفتر لاہور کے باہر دونوں جگہ پر مریم نواز کا کارکنوں کی طرف سے زبردست استقبال اور نوازشریف، مریم نوازکے حق میں خوب نعرے بازی ہوئی لیکن شہبازشریف کا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا۔ اسی بناپر شہبازشریف کو چپ کا روزہ توڑناپڑا۔ آئندہ چند ہفتوں میں یہ پوری طرح واضح ہو جائے گا کہ اپوزیشن جو عمران مخالف الائنس میں اکٹھی ہو رہی ہے حکومت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے؟ ۔ صرف چند ہفتے پہلے تک ایسا الائنس بننا مشکل نظر آرہا تھا لیکن اس کی تشکیل میں تحریک انصاف کی حکومت اور نیب نے "شبانہ روز محنت" کی ہے۔ نیب کے تابڑ توڑ مقدمات اور اندھا دھند انتقامی کارروائیوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے لیے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھاکہ وہ ایک صفحے پر آجائیں۔
تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا، سیا سی اپوزیشن کو انتقامی، تعزیری ہتھکنڈوں سے زیر نہیں کیا جا سکتا۔ خان صاحب نے اپنے حالیہ بیان میں اپوزیشن کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا ہے۔ ہر حکمران روایتی طور پر اپنے مخالفین پر اس قسم کے الزامات لگاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پرلاکر ان کے تحفظات دور کئے جاتے لیکن خان صاحب سمجھتے ہیں کہ مقتدر اداروں کی تائید سے اپوزیشن کے بازو آسانی سے مروڑے جا سکتے ہیں۔ اپوزیشن سے تال میل اور مذاکرات کسی بھی جمہوری نظام کا خاصا ہوتے ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اگر اپوزیشن کوئی بات کرے تو حکمران جماعت پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتی ہے کہ یہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ اسی بنا پر وطن عزیز میں سیا سی اشرافیہ کا کوئی بنائے اتحاد نہیں بن پا رہا کیونکہ حکومت کے دوسال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں کہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے جو خاکم بدہن پورے سسٹم کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔