Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khoob Khela

Khoob Khela

آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی دیر تھی کہ سیاستدانوں کے نت نئے انکشافات نے عجیب افراتفری کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ الزامات، جوابی الزامات کی بھرمار ہے اور ہر کوئی فوجی قیادت کے قریب ہونے اور دیرینہ تعلقات کا دم بھر رہا ہے، بعض کا تو دعویٰ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ سے ان کے خاندانی، ذاتی یا قلبی تعلقات ہیں۔ یہ تمام نفسانفسی پیدا کرنے کے مرکزی کردار شیخ رشید ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن کو ایکسپوز کیا جا رہا ہے، سب سے پہلے تو یہ انکشاف ہوا کہ نواز شریف کے سوا مسلم لیگ )ن( کی اعلیٰ قیادت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کی دعوت پر عشائیہ تناول کیا، یہ اگرچہ اے پی سی کے انعقاد سے پہلے کا واقعہ ہے لیکن اس کی تصدیق اے پی سی کے بعد ہوئی۔ ابھی اسی پر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اے پی سی کے موقع پر نواز شریف کی ویڈیو لنک کے ذریعے دھواں دھار تقریر کے کیا محرکات ہیں کہ نہلے پہ دہلے کے مترادف یہ انکشاف ہو گیا کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر، جنرل قمر جاوید باجوہ سے دو ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ محمد زبیر جو اپنی خاندانی روایات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے سند یافتہ رکن ہیں، کا کہنا تھا کہ ان کی دونوں ملاقاتوں میں میاں نواز شریف کے لیے معافی یا ان کے لیے کسی ڈیل کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان کے خاندان کا جنرل باجوہ کے ساتھ گہرا اور قلبی تعلق ہے۔ تاہم یہ بات لگا نہیں کھاتی کہ محمد زبیر کی ان ملاقاتوں میں نواز شریف کے لیے کسی رعایت یا ممکنہ ڈیل کا ذکر ہی نہیں ہوا۔ یہ ملاقاتیں تاہم اے پی سی سے کافی دن پہلے ہوئی تھیں۔

محمد زبیر لیفٹیننٹ جنرل غلام عمر کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار یحی ٰخان کے معتمدین خصوصی میں ہوتا تھا۔ سقوط ڈھاکہ سے عین قبل جنرل عمر یحیی ٰ خان کے مشیر نیشنل سکیورٹی تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ میاں نواز شریف کی ڈیل کے لیے کافی حلقے سرگرم عمل تھے اور محمد زبیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ جنرل غلام عمر مرحوم کے چار صاحبزادے تھے جن میں سے ایک طارق عمر کچھ عرصہ قبل انتقال کر چکے ہیں باقی تینوں محمد زبیر، اسد عمر اور منیر کمال اپنے تئیں اپنے اپنے شعبوں میں خاصے فعال ہیں۔ منیر کمال جو سابق بینکر ہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے اہم نمائندے ہیں۔ ان بھائیوں کی صفت خاصی نمایاں ہے کہ وہ ٹھنڈی کر کے کھانے کے عادی ہیں اور بے جا انا پسندی کی آلائشوں میں نہیں پڑتے۔ پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی طرح انہوں نے بھی ماضی میں اپنی ٹانگ ہر پارٹی میں پھنسائے رکھی، منیر کمال مسلم لیگ )ن( کے قریب گردانے جاتے تھے اور بڑی مہارت کے ساتھ شریف برادران سے اپنا الو سیدھا کرتے رہتے تھے۔ اسد عمر، عمران خان کی کچن کیبنٹ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اسد عمر اگرچہ کوئی نمایاں کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے لیکن انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ کارپوریٹ کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ ان کی فہم و فراست کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دنوں میں جہانگیر ترین نے مبینہ طورپر انہیں وزارت خزانہ سے فارغ کرادیا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنی سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں تک محمد زبیر کا تعلق ہے وہ بھی اپنی وضع داری، رکھ رکھاؤ اور موقع کی مناسبت سے بات کرنے کے طفیل میاں نواز شریف کے قریب ہو گئے۔ وہ ان کے دور میں ہی گورنر سندھ بنے، اس سے پہلے وہ سرمایہ کاری بورڈ اور پرائیویٹائزیشن کمیشن کے سربراہ رہے۔ عمر فیملی کو دیکھ کر مجھے خیبرپختونخوا کی سیف اللہ فیملی یاد آگئی، انور سیف اللہ پاکستانی سیاست کے مختلف لنگروں سے مستفید ہوتے رہے، والدہ محترمہ بھی اس آرٹ کی ماہر تھیں انہوں نے اپنی اولاد کو سیاست اور کارپوریٹ کی دنیا میں کامیابی سے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ کاروبار میں بھی خوب پیسے بنائے اور سیاست کو بھی ذاتی منفعت کے لئے استعمال کیا۔

جس موثر طریقے سے شیخ رشید کو شریفوں کی ساکھ تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مابعد اے پی سی ایساماحول بن گیا ہے کہ اے پی سی کے موقع پر میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقریر کا ذکر ہی دب کر رہ گیا ہے اور مسلم لیگ )ن( کی خفیہ یا ریڈارکے نیچے خفیہ ملاقاتوں کا ذکر زبان زد خاص و عام ہے۔ شاید اسی لیے بعد از خرابی بسیار میاں نواز شریف نے اپنے ساتھیوں پر بغیر پیشگی اجازت کے فوجی قیادت اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات پر پابندی لگا دی ہے، اب دیکھنا ہے اس نام نہاد پابندی پر بھی کس حد تک عملدارآمد ہوتا ہے۔ محترمہ مریم نواز ہزار کہتی رہیں کہ اس قسم کی ملاقاتیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہئیں جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا اور اس طرح حکومتی عمائدین اور اسٹیبلشمنٹ نے میاں نواز شریف کی اے پی سی کے موقع پر تقریر کے زہر کو نکال باہر پھینکا ہے۔ گویا کہ پکڑدھکڑ، الٹا لٹکا دینے کی دھمکیاں دینے کے بجائے اس حساس معاملے کو چابکدستی سے ہینڈل کر لیا گیا جس نے بھی فیصلہ کیا کہ میاں نواز شریف کی تقریر ہونے دیں جھوٹ کا جھوٹ اور سچ کا سچ سامنے آجائے گا، ترپ کا پتہ انتہائی مہارت سے کھیلا ہے اور اپوزیشن جیت کر بھی اسٹیبلشمنٹ سے ہار گئی۔

عمران خان بھی اپنی جگہ ٹھیک ثابت ہوئے کہ تقریر ہو لینے دیں، کچھ نہیں بگڑے گا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جواسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں اسٹیبلشمنٹ سے پھر ایک مرتبہ مات کھا گئے۔ انہیں اپنی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا چاہیے۔ محض بڑھک بازی سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے بر عکس پیپلزپارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ سے یقینا رابطے میں ہے لیکن آصف زرداری کیونکہ سیاسی طور پر زیادہ زیرک ہیں انہوں نے بہتر حکمت عملی سے کام لیا ہے اور اس طرح ایکسپوز نہیں ہوئے جیسا کہ نواز شریف سمیت ن لیگ کی قیادت ہوگئی ہے۔