وزیر اعظم عمران خان3 مارچ کو ہونے والے ایوان بالا کے48سینیٹروں کے انتخابات اوپن بیلٹ کے تحت کرانے پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں، اپوزیشن کے آن بورڈ نہ آنے کے باوجو د الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر قانون میں ترمیم میں ناکامی کے بعد انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلئے صدارتی آرڈ یننس جاری کیا گیا، اس حوالے سے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا، پاکستان بار کونسل، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس آرڈیننس کو چیلنج کر دیا ہے۔
خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب کچھ سیاست میں راست بازی، شفافیت قائم کرنے اور ووٹوں کی خریدوفروخت کا قلع قمع کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے الیکشن ہوا تو اپوزیشن رو ئے گی۔ حکومت کی لیگل ٹیم نے اوپن بیلٹ کے حوالے سے آئینی اور قانونی طور پر ناکامی صاف نظر آنے کے بعد اب سیاسی حکمت عملی اپنالی ہے، ایک طرف حکومت اس معاملے میں سپریم کورٹ میں گئی ہے تو دوسری طرف آئین میں ترمیم کیلئے بل پیش کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا۔
دوسری طرف ویڈیو سکینڈل جس میں خیبرپختونخواکے وزیر قانون سلطان محمد خان جواب مستعفی ہو چکے ہیں، 2018ئکے سینیٹ کے انتخابات میں رقم وصول کرتے نظر آ رہے ہیں۔ 2021ء کے سینیٹ کے انتخابات سے عین قبل جب حکومت اوپن بیلٹ پر اصرار کر رہی ہے، یقینا اس ویڈیو کا اس وقت منظر عام پر آنا معنی خیز ہے، مزید برآں مبینہ طور پر رقم لینے والے، اس وقت کے خیبرختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور سپیکر پر جو الزام لگا رہے ہیں یہ سیاسی ڈھانچے خاص طورحکمران جماعت کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ ماضی میں تو عدالتیں بعض اوقات حکومتوں کی خواہشوں کے سامنے سجدہ سہو کردیتی تھیں لیکن اب جبکہ بعض جج صاحبان آزاد روی سے کام لیتے ہیں تو اس قسم کے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں، بازو مروڑ کر بنیادی آئینی معاملات کو اپنے ڈھب کے مطابق طے کرانے کی نئی روایت ڈالی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کے تجویز کردہ طریقہ کار کے مطابق انتخابات کرائے گئے تو یقینا انہیں عدالتوں میں چیلنج کیا جا ئے گا، اگر اس وقت اعلیٰ عد لیہ نے اسے کالعدم قراردے دیا تو جمہوری ڈھانچہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سارا زور سینیٹ کے طریقہ انتخاب پر دیا جا رہا ہے لیکن ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا اس سے فائدہ اٹھانے والے ڈکار مارے بغیر ہی ہضم کر گئے۔ خان صاحب کا فرمانا ہے کہ نئے نظام کے تحت حکومت کو کم نشستیں مل سکتی ہیں لیکن وہ یہ قربانی ایک صاف ستھرے انتخابی نظام کے نفاذ کے لئے دے رہے ہیں۔ نہ جانے اپوزیشن کیونکر اس سے فائدہ اٹھانے سے گریز کر رہی ہے۔ مبصرین حیران ہیں کہ حکومت کی اوپن بیلٹ الیکشن کے بارے میں اس حکمت عملی کے پیچھے کیا راز ہے اور وہ کیو نکر"چور، خائن اور کرپٹ "سیا ستدانوں کو زیادہ نشستیں دلوانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنے پروگرام ایجنڈے اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اسے سینیٹ میں بھی اکثریت حا صل ہو لیکن کسی بھی طریقہ انتخاب کے تحت ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور بھاری رقوم کے لین دین کے حوالے سے حکومت کو خطرہ ہے کہ اپوزیشن مال لگا کر ان کے بندے توڑے گی۔ گویا کہ خان صاحب کو اپنے ہی ارکان پر اعتماد نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے جسد سیاست کو صاف وشفاف اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت سے پاک جمہوریت کو فروغ دے کر صحیح معنوں میں ایک جمہوری ملک بنایا جائے، اس وقت افسوسناک صورتحا ل یہ ہے کہ پاکستان میں جو نظام رائج ہے اسے کوئی جمہوری بھی تسلیم نہیں کرتا۔ حال ہی میں موقر جریدے اکانومسٹ نے ایک سروے شائع کیا ہے جس میں دنیا کے کئی ممالک کا نقشہ بھی شامل ہے، اس کے مطابق پاکستان کو غیر جمہوری ملک قرارنہیں دیا گیا لیکن اس کا شماران ملکوں میں کیا گیا ہے جہاں جمہوریت کا دور دورہ تو ہے لیکن عملی طورپر جمہوریت کوہائبرڈ سسٹم سے چلایا جا رہا ہے گویا پاکستان میں عملاً فوجی آمریت تو نہیں ہے لیکن جمہوری ادارے آزادی سے کام نہیں کر سکتے۔ یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم جمہوری ملک ہیں جہاں وفاقی پارلیمانی نظام ایک آئین کے تحت کام کررہا ہے، عدالتیں آزاد ہیں، پارلیمنٹ خو دمختار ہے اور جہاں تک سویلین حکومت کا تعلق ہے وہ تو اپنے فیصلے پوری آزادی سے کرتی ہے، میڈیا کو بلا امتیاز آزادی سے رپو رٹنگ کرنا اور معاملات کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی پوری آزادی ہے۔ کاش یہ سب کچھ ہوتا تو کسی کو ہمارے سیاسی نظام پر انگشت نمائی کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ اگر حکمران جماعت واقعی ایک صاف ستھرا جمہوری نظام لانا چاہتی ہے تو اس کے لیے اپوزیشن کے سا تھ بیٹھ کر بلکہ جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھے بیٹھنا چاہیے غالبا ً ان کی مراد افواج پاکستان سے بھی ہے۔ ان کی دلیل صائب ہے لیکن پہلے سیاستدان تو ایک صفحے پر آئیں لیکن یہ کام خان صاحب کے بس کا روگ نہیں لگتا۔ وہ تو شفافیت کے نام پر اپوزیشن کی چھٹی کرانا چاہتے ہیں اور جو مذاکرات کی بات کرے اس پر این آر او کی بھیک مانگنے کی تہمت لگادیتے ہیں، مزید برآں وہ ہائبرڈ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ کیونکر اس کے خاتمے کے لیے بامقصد مذاکرات کا آغاز کریں گے۔