وزیر اعظم عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ان کے فوج کے ساتھ تعلقات بہت خوشگوار ہیں، غالباً اپوزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوں کی بڑی خواہش ہے کہ ان کے فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں۔ خان صاحب نے یہ کوئی بڑی خبر نہیں دی۔ ہر ذی شعور پاکستانی کو علم ہے کہ موجودہ حکومت اور افواج پاکستان ایک ہی صفحے پر ہیں۔ ماضی کی سویلین حکومتیں بدقسمتی سے بوجوہ یہ منزل کبھی طے ہی نہیں کر پائیں۔ ہمارے ماضی کے منتخب حکمران ہمیشہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ ہم مختار کل ہیں لیکن قیام پاکستان سے لے کر اب تک زمینی حقائق مختلف کہانی پیش کرتے ہیں۔ 1958ء میں پہلے سیاسی مارشل لا جس کے نتیجے میں جنرل، بعد ازاں فیلڈ مارشل، ایوب خان نے بلا شرکت غیر ے حکومت کی۔ وہ ملکی سیاست کو ایسے سانچے میں ڈھال گئے کہ یہاں منتخب سویلین حکومتوں کو کبھی غلبہ یا سپریمیسی حاصل نہ ہو سکی، اس پر مستزادیہ کہ ہمارے سیاستدانوں اور ماضی کے فوجی حکمرانوں نے تاریخ اور تلخ تجربات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ ایوب خان نے اپنی نام نہاد بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت دس برس تک دھڑلے سے حکومت کی۔ انہوں نے اپنے "سنہری دور" کو عظیم عشرہ اصلاحات قرار دیا، یہ الگ بات ہے کہ اس ترقی معکوس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کے قیدی بن گئے۔ یقیناً یہ سوویت یونین اور بھارت کی سازش تھی لیکن اصل قصور ہمارا اپنا تھا۔ ایوب خان کے دور میں ساری ترقی مغربی پاکستان میں ہوئی اور مشرقی پاکستان غریب سے غریب تر ہوتا گیا، مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے احساس محرومی سے ہمارے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آدھا ملک کھونے کے باوجود ہمارے سیاستدان کچھ نہ سیکھ سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے ایک سال بعد ہی بلوچستان پر چڑھائی کر دی۔ اگرچہ اپنے ہی شہریوں پر فوج کشی کے فیصلے میں اس وقت کی فوجی قیادت کا بھی کلیدی کردار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں ایک متفقہ وفاقی پارلیمانی آئین منظور کرایا لیکن اس کے باوجود وطن عزیز میں خود ہمارے سیاستدان جمہوری اقدار، شہری آزادیوں اور آزادی اظہار رائے سے کھلواڑ کرتے رہے۔ بھٹو حکومت نے کبھی اپوزیشن کو دل سے گلے لگایا اور نہ ہی اپوزیشن نے حکومت کو سکھ کا سانس لینے دیا، نتیجتاً جب کائیاں اور سازشی جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو اقتدار پر شب خون مارا تو کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کی طویل اندھیری رات مسلط ہو گئی جس نے ناصرف جمہوری اداروں بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی پامال کر کے رکھ دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نام لے کر پاکستانیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے، آئین کی دھجیاں بکھیر دیں اور اس میں ایسی یکطرفہ ترامیم کیں جن کے نتیجے میں جمہوری پارلیمانی نظام کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا۔ آج بھی 1973ء کے آئین کی بعض شقیں وفاقی پارلیمانی نظام کی روح کی نفی کرتی ہیں۔
شاید جنرل ضیاء الحق کے پراسرار فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد ہی قوم کو فوجی آمروں سے چھٹکارا حاصل ہو جاتاچہ جائیکہ ایک اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف بطور آمر پاکستان پر مسلط ہو گئے۔ ایک طرف ضیاء الحق کا تلخ تجربہ تھا کہ اسلام میں سیاست اور سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف پرویز مشرف نے میانہ روی پر مبنی روشن خیالی کا درس دیتے ہوئے قریباً دس برس حکومت کی، گویا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وطن عزیز میں نصف عرصہ فوجی آمروں کے نظام کے تحت گزرا۔ جس کے نتیجے میں سیاسی اقدار اور جمہوری روایات تباہ ہو کر رہ گئیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی نظام کے تحت خود لائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجوبھی ناقابل برداشت ثابت ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی غیر آئینی طریقوں سے پس پردہ کھیلنے والے ہاتھوں نے چھٹی کرائی۔ اس پس منظر میں یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ اکثر منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کیے بغیر ہی گھر جانا پڑا۔
یہ بھی مبنی برحقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے مجموعی طور پر گورننس، شفافیت اور جمہوری اقدار کا پاس رکھنے کے حوالے سے کوئی قابل فخر روایات نہیں چھوڑیں، ہر حکومت کو کرپشن اور نالائقی کا جواز بنا کر فارغ کیا گیا۔ ہر غیر جمہوری مداخلت کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم سب کچھ ٹھیک کرنے آئے ہیں لیکن جب ان کے اپنے اقتدار کا سنگھاسن ڈولا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف سیاسی اداروں کو تباہ کرنے کے مرتکب ثابت ہوئے بلکہ پاکستان کو اقتصادی طور پر بھی بدحال کر گئے۔
عمران خان کے سیاسی منظرپر آنے کے ساتھ ہی غالباً مقتدر ادارے اس نتیجے پر پہنچے کہ نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری ان سب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے عمران خان نے دن رات کی محنت، جدوجہد اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے تحریک انصاف کو مستقل بنیادوں پر کھڑا کیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن )کے متبادل کے طور پر تحریک انصاف بطور حکمران جماعت ابھری، آج ملک میں تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے۔ خان صاحب درست کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی بڑی خواہش ہے کہ میرے فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوں لیکن ان کے فوج کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ شاید اسی بنا پر ناقدین موجودہ نظام کو ہائی برڈ سسٹم قرار دیتے ہیں جس میں فوج اور سویلین حکومت کے درمیان ہر معاملے میں مثالی تعاون موجود ہے۔ نہ تو خان صاحب پر نواز شریف کی طرح بھاری مینڈیٹ اور فوج سمیت تمام اداروں کو زیر کرنے کا بھوت سوار ہے اور نہ ہی وہ تمام اہم معاملات میں فوج کو آن بورڈ لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے ان کو تو ویسے ہی کرپٹ، نا اہل اور سکیورٹی رسک سمجھا جاتا ہے۔ سکیورٹی اور قومی مفادات کے حوالے سے میاں نواز شریف کئی دہائیوں تک فیورٹ رہے لیکن ان کا شمار بھی اس صف میں کیا جاتا ہے کہ ان کا بھارت کے لیے نرم گوشہ ہے۔ اس پس منظر میں جب تک کوئی انہونی نہیں ہوتی اپوزیشن کی خواہش کے باوجود عمران خان اور فوجی قیادت کا ہنی مون چلتا رہے گا۔