ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ملک بھر میں بجلی کے بریک ڈاؤن نے ایک نئی لیکن ناگوار بحث کو جنم دیا، بجائے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور آئند ہ کے لیے ایسے اقدامات کرنے کے جن سے ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو، وفاقی وزیر توانائی عمرایوب اور تحریک انصاف کے دیگر زعما نے اس کی ذمہ داری بھی مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت پر ڈال دی۔ ان کے مطابق ن لیگی حکومت کے دور میں آٹھ مرتبہ ایسے واقعات ہوئے۔ ایسا ہی ہو گا، لیکن اس وقت کے سیکرٹری واٹر اینڈ پاور یونس ڈھاگا جو اچھی شہرت کے حامل ہیں اور عمومی طور پر انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کاکہنا ہے کہ2015 میں سبوتاژ کے نتیجے میں اس قسم کا بریک ڈاؤن ہوا تو زوننگ کا ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت ٹرانسمیشن بریک ڈاؤن کو اسی ریجن تک محدود رکھا جائے اور باقی گرڈ کام کرتے رہیں۔ یونس ڈھاگا کے مطابق 2016اور 2017میں جب بریک ڈاؤن ہوا تو قومی گرڈ اس سے متا ثر نہیں ہو ا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو تحقیقات کرنی چاہیے کہ یہ سسٹم کس نے اور کیونکر ختم کیا؟ ۔
حکومتی ترجمانوں کے اس دعوے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ سابق حکومت نے مہنگے پا ور پلانٹس تو لگائے جن سے بجلی پیدا کرنے کی استعداد مانگ سے بھی بڑھ گئی لیکن ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کانظام فرسودہ ہی رہا۔ ن لیگ کی حکومت میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت کے الزام کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ن لیگ نے اس سمت میں کام کیا اور ہزاروں میل طویل ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائینیں بچھائیں، اسی کی بدولت موجودہ حکومت موسم گرما میں 24 ہزار میگا واٹ بجلی تقسیم کرنے کے قابل ہوئی، ن لیگ کا بنایا ہوا این ون سسٹم کسی پاور پلانٹ کی بندش کے باوجود ترسیلی نظام کو مستحکم رکھ سکتا ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت نے جاری نہ رکھا اور حالیہ گرمیوں میں مرمت بھی نہیں کرائی۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کانظام انتہائی ناقص ہے جس بنا پر وفتا ً فوقتاً بریک ڈاؤن معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ اب ان معاملات کو ٹھیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
حیران کن بات ہے کہ فروری تک موجودہ حکومت کی نصف مدت پوری ہوجائے گی لیکن اب بھی حکومت کے نزدیک ہر خرابی کی ذمہ دار سابق حکومتیں ہی ہیں۔ عمران خان اسی بنیا د پر حکومت میں آئے تھے کہ وہ اپنے سے پہلے کی حکومتوں کی مبینہ بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو ختم کر کے ایک صاف ستھرا نظام لائیں گے لیکن تاحال چند شعبوں کو چھوڑ کر اکثر میں تبدیلی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ توانائی کے شعبے کو ہی لیں، اس شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضے ہیں جو سابق حکومت کے دور سے ہی چلے آ رہے ہیں، اس بارے میں بھی خان صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ گردشی قرضے ختم کئے جائیں گے ہم نے حکمت عملی تیار کر لی ہے جس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ گردشی قرضے جون 2018 میں 1148 ارب روپے تھے جو اب بڑھ کر 2400ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ بجلی کا فرسودہ نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے جس کے تحت بجلی چوری اور کنڈا لگانے کی روایت اب بھی عام ہے۔ اس پس منظر میں پی ٹی آئی کی حکومت جب تک اپنے کام کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائے گی ہر شعبے میں معاملات جوں کے توں ہی رہیں گے۔ یہ ناقص حکمت عملی حکومت کے لیے سیاسی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ اس دعوے سے کہ ہمار اقصور نہیں، سابق حکومت کے لٹیرے سب کام خراب کر گئے، عوام میں کوئی اچھا تاثر پیدانہیں ہوتا۔ اگر نواز شریف نے اپنے دورمیں کچھ غلط کیا تو انہیں عوام نے مسترد کر دیا اور وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ خان صاحب کیا کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم بلاناغہ کئی کئی تقریریں کر کے عوام کا دل بہلاتے رہتے ہیں، ان کا استدلال بڑا ساداہے کہ" اپوزیشن بے شرم ہے، نو از شریف باہر بیٹھ کر فوج میں بغاوت کرانا چاہتے ہیں، ہم نے ڈاکو ؤں کو جیل میں ڈالا ہے۔ اگرچہ آسان را ستہ یہی ہے کہ میں اپوزیشن کو چھوڑدوں لیکن میں این آر او نہیں دوں گا، اپنے اصولی موقف سے ہٹنے والا نہیں ہوں "، یہی گردان دن رات ترجمانوں کی فوج ظفر موج بھی کرتی رہتی ہے۔ شیخ رشید احمد جو ریلویز میں "کارہائے نمایاں " انجام دینے کے بعد اب وزیر داخلہ ہیں کی میڈ یا پر حاضر باشی اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اپوزیشن کے لتے لینے کے علاوہ پیشگوئیاں کرنے کے بھی ما ہر ہیں۔ ان کا تازہ واکھیان ہے کہ وزیر اعظم چوروں ڈاکو ؤں سے کبھی مفاہمت نہیں کریں گے، نہ جانے کون خان صاحب سے کہہ رہا ہے کہ آپ مفاہمت کریں اور اپوزیشن کے علاوہ کس کا اس بارے میں دباؤ ہے۔
اگرچہ میڈیا میں اکثر آ وازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ملک میں ہذیانی کیفیت کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں اور اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں جو کسی کامیاب جمہوری نظام کا خاصا ہوتا ہے تاکہ ملک آ گے بڑھ سکے لیکن یہ تا ثر جا گزیں ہوگیا ہے کہ حکومت بیان بازی اور دعوؤں پر چل رہی ہے اور تما م خرابیوں کا ذمہ دار سا بق حکومتوں کو قرار دینے کے سوا اس کے پاس کوئی چورن نہیں ہے۔ جیسے اڑھائی برس گزرے اسی طرح سسک سسک کر باقی عرصہ بھی گزر جائے گا لیکن باقی عرصے میں پی ٹی آئی نے کوئی کارکردگی نہ دکھائی اور اسی ڈگر پر چلتی رہی تو آئند ہ انتخابات میں کامیا بی ممکن نہیں ہو سکے گی۔