بلوچستان کے دور دراز علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے 11ارکان جو پیشہ کے اعتبار سے کان کن تھے، کا سفاکانہ قتل انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک واقعہ توہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات اب تسلسل سے ہو رہے ہیں۔ بلوچستان تو دہشت گردوں کا خاص طور پر ٹارگٹ بناہوا ہے حتیٰ کہ مقامی قانون اور امن وامان قائم کرنے والی فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی بے بس نظر آ رہی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان طویل عرصے سے دہشت گردوں کی آماجگا ہ بنا ہواہے۔ یہاں پر پاک فوج بھی خاصی تعداد میں تعینات ہے جس نے صوبے میں ہم آہنگی کے فروغ اورامن وامان کی صورتحا ل بہتر کرنے کے لیے بھرپور سعی کی ہے، کالج، یونیورسٹیاں اور ہسپتال بھی بنائے، وہاں کے کورکمانڈر جو سدرن کمانڈ کا کمانڈنٹ بھی کہلاتا ہے، نے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ دہشت گردوں پر کڑی نظر رکھنے کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن ا س کے باوجود دہشت گردوں کی مذموم کارروا ئیاں ٹھنڈی نہ پڑنا انتہائی تشویشناک ہے۔ افغان مجاہدین اور افغان طالبان کے بعد وہاں دا عش کا فعال ہو جا نا کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ جب مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے حو الے سے داعش کانام پہلی بار سامنے آیا تو اس خطے کے ماہرین دعویٰ کرتے تھے کہ یہ افغانستان میں نہیں ہے لہٰذاہمارے لیے ستوں خیراں ہیں لیکن سنجیدہ اور زیرک حلقوں نے اس وقت بھی متنبہ کیا تھا کہ ان کا ٹھکانہ بالآخر افغانستان ہی ہو گا، یہ نظریہ کہ طالبان داعش کی مخالفت کریں گے خام خیالی ثابت ہوا۔ جہاں تک ہزارہ برادری کا تعلق ہے یہ بیچارے طویل عرصے سے نام نہاددولت اسلامی عراق و شام کے نشانے پر ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہزارہ یاتریوں کی بھری بس کو روک کر تمام مسافروں کو موت کے گھاٹ ا تار دیا گیا تھا لیکن ریاست کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بلوچستان میں پچھلے بیس برس کے دوران دہشتگردی کے مختلف واقعات میں ہزارہ برادری کے 1800 کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں قریبا ً جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بلوچستان کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا۔ مئی 1948میں خان آف قلات میر احمد یار خان کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ 1956کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا جس کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی لیکن ایوب خان کی حکومت نے اسے کچل دیا۔ بھٹو دور میں جب بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے داخلی خودمختاری کا مطالبہ کیا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مطالبے کو مبینہ طور پرمرکز سے بغاوت سے تعبیر کیا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت برطرف کر کے اسمبلی توڑ دی اور وہاں گورنر راج نافذ کر دیا۔ بھٹو کے اس اقدام کے خلاف ایک تحریک چلی اور ان کے اقتدار کے خاتمے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آخر کار جنرل ضیا الحق نے اپنی سیاسی اور فوجی مصلحتوں کے پیش نظر گیارہ ہزار زیر حراست سرداروں اور ان کے چھاپہ ماروں کو رہا کر کے بلوچوں سے صلح کر لی۔
اب بلوچستان میں صورتحال یہ ہے کہ کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن عملی طور پر مسلسل بد امنی کا شکار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس انداز سے بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کو اس وقت کے فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے ہلاک کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔ اکبر بگٹی اتنے انقلابی نہیں تھے، 1973 میں جب بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی تو انہوں نے اکبر بگٹی کو ہی گورنر بنایا تھا، لیکن بعدازاں صو بے کے حقوق کی بات کرنے کی پاداش میں ان کا حشر نشر کیا گیا۔ اس پس منظر میں صوبے کے زیادہ تر سیا ستدان اقتدار کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں، جو سیاستدان صو بے کے حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حصول کی بات کرتے ہیں وہ غدار کہلاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں پر غیر ملکی مد د سے دہشت گردکھل کھیل نہیں رہے۔ بھارت بھی بلوچستان میں ریشہ دوانیوں میں پیش پیش ہے۔ اس ماحول میں صوبے میں دہشت گردی کا بڑھنا کوئی حیران کن خبر نہیں ہے۔ داعش بھی اس صورتحال سے بھرپو ر فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے داعش کو تو اسلامی ممالک خواہ شام ہو، عراق یا افغانستان میں اس قسم کا ماحول خوب بھاتا ہے۔
چا ہیے تو یہ کہ بلوچستان کے حقیقی نمائند ہ افراد کو بھی آگے آنے دیا جائے اور وہ بیرونی لوگ جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے بے جا مداخلت کر رہے ہیں انہیں یہاں کے حالات بدلنے کے لیے کئی دہائیوں سے سرایت کردہ اپنے خیالات بد لنا پڑیں گے۔ صوبے میں کس بھونڈے انداز سے جمہوریت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے اس کی ایک حالیہ مثال راتوں رات وہاں کی برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی" باپ" کا مبینہ طور پر سکیورٹی اداروں کی مدد سے وجود میں آجانا ہے اور اسی طرح 2018 میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کا نام نہاد انتخاب۔ پھر یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ بلوچ قوم پرست حکومت پر کڑی تنقید کیوں کرتے ہیں۔ دہشتگرد قرار دے کر ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو مسلسل لاپتہ رکھناکہاں کا انصاف اور کہاں کی جمہوریت ہے۔ ویسے تو وطن عزیز میں جمہوری ادارے ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کے مترادف پنپ رہے ہیں لیکن بلوچستان میں صورتحال ابتر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ فرماناکہ سکیورٹی میں کوتاہی متذکرہ سانحے کا سبب نہیں ہے، سر آنکھوں پر لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کو مکمل تحقیقات اور چھان پھٹک کے بعد اپنا فیصلہ صادرکرنا چاہیے تھا۔ بعداز خرابی بسیار یہ تصور کر لینا کہ دہشت گردوں نے تو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ہی تھا۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے یہ ادارے اپنے فرائض منصبی کتنی جانفشانی سے ادا کرتے ہیں انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ دہشت گرد کس انداز سے دندناتے پھر رہے ہیں، گویا کہ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔