حکومت قانونی اور سیاسی محاذوں پر شکست کھانے کے باوجود بضد ہے کہ سینیٹ کے اگلے ماہ ہونے والے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں۔ جہاں تک اس سلسلے میں آئین میں ترمیم کا تعلق ہے وہ پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کی مطلوبہ عددی اکثریت نہ ہونے کی بنا پرناممکن ہے۔ نہ جانے کیوں خان صاحب اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ دوسری طرف بقول تحریک انصاف کے اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) چارٹر آ ف ڈیموکریسی میں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کے وعدے سے مکرگئی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے اتحادوں کے درمیان معاہدے ہوتے رہتے ہیں جن کی خلاف ورزی بھی حسب ضرورت خود سیاسی جماعتیں کرتی رہتی ہیں۔ کئی رہنما انتخابات سے قبل کئے گئے دعوؤں اور وعدوں سے پھر جانے کے حو الے سے خاصے مشہور ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے چارٹر آف ڈیموکریسی میں نیب کے خاتمے پر اتفاق رائے ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور اقتدارمیں اس کو چھوا تک نہیں۔
وزیراعظم عمران خان مصر ہیں کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں سیکرٹ بیلٹ کو ہر صورت ختم کرنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ان انتخابات میں خریدوفروخت ہوتی ہے۔ انہوں نے 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں 60کروڑ روپے لینے کے الزام میں اپنے 20ارکان اسمبلی کے خلاف سخت نوٹس لیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف تین سال گزرنے کے باوجود کسی بھی ایم پی اے کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کرسکی، عمران خان کے اعلان کے باوجود اس کرپشن میں ملوث کسی ایم پی اے کے خلاف کوئی کیس نیب کو نہیں بھجوایا گیا، بعض سابق ایم پی ایز نے عمران خان کے خلاف مختلف عدالتوں میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا لیکن تحریک انصاف نے کسی کیس میں شواہد یا جواب جمع نہیں کرایا۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں جوڑ توڑ، سودے بازی اور ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میں فائدہ تحریک انصاف کو ہی پہنچا تھا۔
سیاسی ماحول میں یہ مقولہ خاصا درست معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انسان کی نیت میں کھوٹ ہو اور وہ ناجائز طور پر پیسے کمانے پر تلا ہو تو وہ لہریں گننے سے بھی مال کما سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں امانت میں خیانت روزمرہ کا معمول بن گیا ہے اور بدقسمتی سے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بھونپوفارن فنڈنگ کیس میں بھی اپوزیشن کو مطعون کر رہے ہیں جبکہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے، اگر حکمران جماعت اتنا ہی شفافیت پر یقین رکھتی ہے تو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اکاؤنٹس سامنے لے آئے۔
سینیٹ کے انتخابات تو جسد سیا ست کا ایک پہلو ہے لیکن کون سا سیاست دان حلفا ً یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا جس سیاسی جما عت سے تعلق ہے اس میں اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک پائی کی چوری بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ الیکشن کا آغاز ہی بے ایمانی سے ہوتا ہے، کیاسیاستدانوں کی اکثریت الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی مہم کیلئے اخراجات کی مقرر کردہ حدود میں رہتی ہے؟ ۔ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ووٹوں کی خرید وفروخت اور اقتدار کی خاطر یا دیگر فوائد حا صل کرنے کے لیے اکثرسیاسی رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کومعمول کی کارروا ئی سمجھاجاتا ہے۔ اگر موجودہ حکمران جماعت کی ہی مثال لی جائے، خان صاحب کے مخالفین نے ان پر "سلیکٹڈ" کا لیبل لگا دیا ہے اور زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے مطابق یہ سب کچھ " خلائی مخلوق " کے ایما اور کوششوں سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بنائے اتحاد اقتدار اور وزارتوں کا حصول تھا ایک پارٹی کے بینرتلے اکٹھے کر دیئے گئے۔ اس حوالے سے اے ٹی ایم مشینوں یعنی وہ شخصیات جو بہت مالدار تھیں نے خوب مال لٹایا۔ اس قسم کی کاروباری نام نہاد سیاست کے نتیجے میں کئی گروپ پیداہو چکے ہیں جو "اصولوں " کی بنیاد پر اپنی پارٹیوں یا لیڈروں سے روٹھ جاتے ہیں اور حکمرانوں کی طرف سے فرما ئشیں پوری ہونے پر جلدی مان بھی جاتے ہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے، یہ تو ریاست مدینہ بنانے چلی تھی اور گزشتہ ادوار حکومت میں تبدیلی کی پیامبر تھی۔ خان صاحب کو تو ریاست مدینہ کے آثار بھی نظر آ نے لگے ہیں لیکن پاکستان کے عام شہریوں کی صبح سے شام تک مشقت کے باوجود دو وقت کی روٹی، بچوں کی تعلیم، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور علاج معالجہ جیسی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتیں، انہیں تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ خان صاحب کا سینیٹ انتخابات کو پوتر بنانا ایک نیک کام ہے لیکن شاید انہیں احساس نہیں کہ وہ ایک کرپٹ ترین سیاسی نظام میں اسی قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعے ایوان اقتدار تک پہنچے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سینیٹ ہی کوریفارم کرنے پراتنا اصرار کیوں؟ ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں اپنے ارکان اسمبلی پرہی اعتماد نہیں، تاہم وجہ کچھ بھی ہو، سینیٹ کے طرز انتخاب میں اوپن الیکشن پر اصرار کرنے کی کیا ضرورت ہے، ایسا قانون پاس بھی ہو جائے یا آرڈیننس کے ذریعے نافذ بھی ہو جائے تو جیسا کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے درست خدشات کا اظہار کیا ہے کہ آرڈیننس کے غیرموثر ہونے کے بعد اس کے ذریعے ہونے والے سینیٹ کے انتخا بات کا کیا مستقبل ہو گا؟ انہوں نے کہا یہ آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے پارلیمان کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے، سینیٹ الیکشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے، اس آرڈیننس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بعض حلقو ں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ حکومت کا اوپن بیلٹ کا شوشہ چھوڑنے کا مقصد محض سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنا ہے۔ ادھر پاکستان بار کونسل نے حکومت سے آرڈیننس فوری واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکئے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس جاری کیا، آرڈیننس کے ذریعے تمام قانونی ضوابط اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیردیں اور عدلیہ کی آزادی اور پارلیمان کے وقار کو سبوتاژ کیا۔ پاکستان بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔