اسلام آباد سے "سب اچھا ہے" کی آوازیں آ رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق معیشت اب درست سمت کی طرف جا رہی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر گزشتہ تین ما ہ سے ہر مہینے بڑھ رہی ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب سرپلس میں آچکا ہے، جولائی میں یہ 424ملین ڈالر سرپلس رہا، اس سے پہلے جون میں یہ سو ملین ڈالر خسارے میں تھا۔ اسی طرح صنعتی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہو رہی ہیں، کورونا وائرس قریب المرگ ہے لیکن افراط زر اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ باعث تشویش ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اشیائے ضروریہ کی فراہمی کیلئے سبسڈی کانظام موثر اور شفاف بنایا جائے گا۔ ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں 23 فیصد زیا دہ ٹیکس جمع ہوا ہے۔ دوسری طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں کوریا کی ایک نئی گاڑی لانچ کی گئی اور لوگوں نے اس کی اتنی بڑی تعداد میں بکنگ کروائی کہ ایڈوانس بکنگ بند کرنا پڑ گئی کیونکہ کارسازادارے نے پاکستان میں اگلے برس جون تک جتنی گاڑیاں بنانے کا ہدف مقرر کیا تھا وہ ایک ماہ میں ہی پورا ہو گیا ہے۔ حکومت کی تعمیراتی شعبے کے لیے متعدد رعایات اور ترغیبات کے نتیجے میں پراپرٹی کی قیمتیں جو گزشتہ برسوں سے جمود کا شکار تھیں بڑھنا شروع ہو گئیں اور سیمنٹ کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔
جب اکانومی کے ان اچانک مثبت رجحانا ت کاسرسری جائزہ لیا جائے تو واقعی سب اچھا ہے لیکن بعض سنجیدہ اقتصادی ماہرین ان علامات کو عارضی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس ضمن میں ابھی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی، اصل صورتحال رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں واضح ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی بنا پر دنیا بھر میں اقتصادی سرگرمیاں قریباً ختم ہو کر رہ گئی تھیں اور اب جب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کاروباری معاملات چلنے لگے ہیں تو برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اس کے علاوہ ترسیلات زر میں اضافے کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دنیا بھر میں تو بڑی معیشتیں بھی تاریخی کساد بازاری سے دوچا ر ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں ورکرز کو فارغ کر دیا گیا ہے جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں کی ہے اور یہ لوگ اپنے حسابات کلیئر کر کے وطن واپس آ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اپنی جمع پونجی بھی واپس لے کرآئیں گے جس سے ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ جب واپس آ جائیں گے تو کیا ہماری اکانومی میں اتنی سکت ہے کہ انہیں بآسانی ضم کرسکے۔
اصل تشویشناک بات یہ ہے کہ ہماری اقتصادیات کبھی مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر کھڑی نہیں ہو سکی کیونکہ معیشت کی بحالی بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل کی مرہون منت ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں ریکارڈ پبلک ڈیٹ کا جو بوجھ پاکستان پر ڈالا ہے، اتنے قرضے پی ٹی آئی کی مطعون کردہ میاں نوازشریف کی حکومت نے پورے پانچ سال میں نہیں لئے۔ دوسری طرف بے روزگاری میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ فی الحال آئی ایم ایف نے کوویڈ 19کی وجہ سے اپنی کڑی شرائط پرعمل درآمد روکا ہواہے اور اس بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی اگلی قسط اس لئے جاری نہیں کی جا رہی کہ حکومت پاکستان اس کے لئے عائد کڑی شرائط پر عمل کرنے سے تاحال قاصر ہے بالخصوص پاور سیکٹر میں آئی ایم ایف سے طے شدہ اصلاحات طاق نسیان میں پڑی ہیں۔ اسی لیے پاور سیکٹر میں گردشی قرضے ریکارڈ 22 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کی جا سکیں۔ اگلی قسط لینے کے لیے جب ان شرائط پر طوہاً و کرہاً عمل درآمد کیا گیا، تو اس کا لازمی طور پر ملکی اقتصادیات پر منفی اثر پڑے گا۔
اگرچہ قوم کا مورال بلند کرنا اور کاروباری ماحول کی مثبت شکل پیش کرنا قابل فہم ہے کیونکہ ایسے ہی ماحول میں سرمایہ کاری اور کاروبار بڑھتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کو اکانومی کی بنیادیں کمزور ہونے کے بارے میں اندھیرے میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے درآمدشدہ وزیراعظم کے اقتصادی مشیران انہیں "سب اچھا" کی نوید سنا رہے ہیں لیکن خدانخواستہ حالات خراب ہوئے تو یہ ماہرین اپنے اپنے بیگ اٹھا کر بیرون ملک واپس چلے جائیں گے۔ لہٰذا اقتصادی صورتحال کے بارے میں قوم کے سامنے حقیقی تصویر رکھنی چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں اور حکمران انہیں اعداد و شمار کا لالی پاپ دے کر یہ کہیں کہ ہم تو خوشحالی کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ کہنا کہ سبسڈیز دے کر سب کچھ کنٹرول کر لیا جائے گا اقتصا دی صورتحال کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ برآمدات بڑھ رہی ہوں، ٹیکس زیادہ اکٹھے ہو رہے ہوں، ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو، ملک میں اکنامک ریکوری ہو رہی ہو لیکن عوام اپنے مسائل میں دھنستے جا رہے ہوں۔ مہنگائی، بے روزگاری بھی ہو اور ان کی آمدن میں کمی بھی واقع ہو رہی ہو لہٰذا جب تک اقتصادی ترقی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ رہے ہوں ان کے لیے ایسی ترقی، ترقی معکوس ہی کہلائے گی۔ اسی بنا پر حکومت کی طرف سے عوام کو دلاسے دینے اور وعدوں وعید کے بجائے حقائق کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔