جن جمہوری ممالک میں نظام شخصیات پربھاری ہوتا ہے وہاں اقتدار کی منتقلی اور بڑے بڑے فیصلے اتفاق رائے کے ساتھ خاموشی سے ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں جاپان کے وزیر اعظم Shinzo Abe ) شنزوآبے( خرابی صحت کی بنا پر مستعفی ہو گئے اور وہاں برسراقتدار جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بطور جانشین Yoshihide Suga ) یوشی ہیڈے سوگا( کو اتفاق رائے سے وزیراعظم چن لیا۔ آبینے اپنا استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اْن کی بیماری ملک کی فیصلہ سازی میں حائل ہو۔ جاپان کی قومی سیاسی روایات کے مطابق آبینے جاپانی عوام سے معذرت کی کہ وہ اپنی اقتدار کی مدت پوری نہیں کر سکے۔ 65 سالہ آبے معدے کی بیماری میں کئی برس سے مبتلا ہیں لیکن ان کی صحت گرتی جا رہی تھی اور ان کے پاس اقتدارسے سبکدوشی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا۔ واضح رہے کہ آبے کی مدت اقتدار اپنے سب پیشروؤں سے زیادہ ہے، وہ بارہ برس تک وزیراعظم رہے اب ان کی جگہ یوشی ہیڈے سوگا جوسابق حکومت میں چیف کیبنٹ سیکرٹری تھے اور پہلے وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 14 ستمبر کو اپنے منصب کا حلف بھی اٹھا لیا۔ گویا کہ 28 اگست کو آبے کے مستعفی ہونے کے بعدصرف 2 ہفتوں کی مدت میں پر امن طور پر اقتدار منتقل ہو گیا۔ نہ کوئی جلسے، نہ جلوس، نہ اپیلیں کہ حضور والا آپ کے بغیر ملک کیسے چلے گا۔
غالباً اکثر حقیقی جمہوری ممالک میں عوام اور حکمرانوں کا نظریہ بھی یہی ہوتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے جو شخصیت بھی اقتدار میں آئے اس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یعنی کہ غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔ ایسے کسی ملک کے لیڈر کے سر پر کسی قسم کے بھاری مینڈیٹ کا خمار سوارنہیں ہوتا۔ ملک کی خدمت کرنے والے منتخب حکمران، حقیقی طور پر انکساری سے ہی کام لیتے ہیں خواہ انہوں نے کتنے ہی بڑے تیر مارے ہوں۔ حال ہی میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل 16 برس اپنی مدت اقتدار گزار کر ریٹائر ہو رہی ہیں۔ محترمہ حقیقی طور پر ایک مدبرہیں، انہیں جدید جرمنی کی بانی بھی کہا جا سکتا ہے، یورپ اور ایک لحاظ سے دنیا بھر میں ان کا شمار ان لیڈروں میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے اقتصادی اور سیاسی طور پر اپنے ملک کی تقدیر بدل دی۔
جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزوآبے کے لیے وزارت عظمیٰ کوئی نئی نہیں تھی۔ وہ 2007ء میں بھی وزیراعظم تھے۔ تب بھی اسی بیماری کی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ آبے کی شہرت ایک قدامت پسند سیاستدان کی ہے، ان کو قوم پرست بھی کہا جاتا ہے اور انہوں نے جاپان کو ترقی کی منزل کی طرف گامزن رکھا حتیٰ کہ ان کے ناقدین بھی انکی اقتصادی پالیسیوں کو Abenomics کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ آبے نے جاپان کے دفاع کو بھی مضبوط کیا، ایسے ملک میں جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد ملٹری ازم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور جاپان کے صلح جو آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت جاپان میں ماسوائے دفاع کے باقاعدہ فوج بنانا آئین کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے، انہوں نے دفاع کو مضبوط کیا۔ بطور وزیر اعظم ان کی پریس کانفرنس میں بارہا یہ سوال ہوا کہ آپ کی جگہ کون لے گا اور کون سی شخصیت منصب کے لیے مناسب ہے تو انہوں نے کہا یہ ان کا مقام نہیں کہ وہ جانشین کافیصلہ کریں۔ واضح رہے کہ جاپان میں 1955ء سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جاپان میں یکطرفہ پارٹی آمریت ہے۔ ایل ڈی پی کے اندر مختلف دھڑے ہیں جو اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون اقتدار کے لیے موزوں ہے اور کون ترقی کے سفر کو جاری رکھ سکتا ہے۔
ہر ملک کا جمہوری نظام اس کی روایات کے مطابق ہوتا ہے لیکن پاکستان میں حکمرانوں کے لیے مبارک سلامت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہر حکمران کو میڈیا کی اکثریت اورحکمران جماعت کا خوشامدی ٹولہ اسے سپرمین کے طور پر پیش کرتا ہے۔ غالباً اس کی بنیادی وجہ سابق مغربی پنجاب یعنی موجودہ پنجاب میں فیوڈل ازم کا کلچر ختم ہونے کے بجائے دن بدن پروان چڑھ رہا ہے کیونکہ حکمران یہی پسند کرتے ہیں۔ ماضی کے فوجی حکمران یا حال کے سیاستدان سبھی اس دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریفرنڈم ہو یا جنرل پرویز مشرف کا دور ہو یا ہمارے خان صاحب کی پارٹی کا کلچر، یہی نا پسندیدہ روایت پروان چڑھ رہی ہے۔ ضیاء الحق نے ریفرنڈم کروایا تھا، اگر آپ اسلام کے حق میں ہیں تو مجھے اقتدار میں رکھنے کے لیے ووٹ دیں اور جنرل ضیاء الحق کو جھرلو والوں نے قریباً سو فیصد ووٹ ڈلوا دئیے۔ بعض لوگوں کادعویٰ ہے کہ کل اندراج شدہ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑ گئے جنہیں بعد میں کم کرنا پڑ گیا۔ ضیاء الحق فضائی حادثے میں دنیا سے چلے گئے۔ مشرف کا ریفرنڈم بھی اسی قسم کا ڈھکوسلہ تھا۔ میاں نواز شریف کے ادوار اقتدار میں بھی شخصیت پرستی کی روایات بام عروج پر تھیں۔ میاں صاحب اپنے "بھاری مینڈیٹ" کے نشے میں امیرالمومنین بننے لگے، ان کے دماغ میں یہ بات سما گئی تھی کہ وہ تاحیات حکومت کریں گے اور ان کے بعد ان کی اولاد ایوان اقتدار سنبھالے گی۔ محترمہ بے نظیربھٹو اور آصف زرداری اس قسم کے کمپلیکس کا شکار نہیں تھے لیکن روشن خیال ہونے کے باوجود ان کے روئیے پرمجموعی طور پر فیوڈل خوشامدی کلچر کے اثرات تھے لیکن عمران خان کے دو سالہ دور اقتدار میں نئی روایات قائم ہوئی ہیں۔ ان کا شمار ان حکمرانوں میں کیا جاسکتا ہے جو اس دہائی میں ووٹ کے ذریعے ہی منتخب ہوئے لیکن آمر مطلق بن گئے۔ اس حوالے سے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن، فلپائن کے صدر روڈریگو دوتیرتے، روس کے صدر پیوٹن جو پہلے ہی آمر مطلق تھے، نریندر مودی کا شمار بھی اپنی مسلم کش پالیسیوں اور کشمیر یوں پر ظلم ڈھانے کے حوالے سے ایسے ہی حکمرانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب کی عدم برداشت قریباً ہر روز ٹیلی ویژن پر ان کے رشحات فکراور ان کے کھلاڑیوں کی گالی گلوچ سے پوری طرح آشکار ہورہی ہے۔ نہ جانے ہمارے حکمران تاریخ سے کیوں سبق نہیں سیکھتے۔ حبیب جالب نے کہا تھا۔۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا