ہمارے ہاں سرکاری دفاتر میں عوام الناس کے ساتھ جو برتاؤ کیا جاتا ہے اور جس قدر بظاہر معمولی عہدیداران اپنے عہدے اور حیثیت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اس سے سرکاری نوکری کی مانگ اور اہمیت میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے دیہاتی وسیب میں سرکاری ملازمین کا رعب داب شہروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ سادہ لوح دیہاتی لوگوں کو تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث اپنے قانونی حقوق سے مکمل آگاہی نہیں ہوتی۔
مزید برآں دیہات میں عام طور پر جہالت اور جھوٹی انا کے باعث متحارب فریقین میں چودھراہٹ کی لڑائی چھڑ جاتی ہے اور مقدمے بازی زور پکڑ جاتی ہے جس کے نتیجے میں سرکاری طاقت کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی سرکاری نوکری کو دیگر شعبوں میں ملازمت پر ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ اصل مقصد شریکوں اور مخالفین پر اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی ایسا سرکاری اہلکار مل جاتا ہے جس نے تمام اہلِ دیہہ کی ناک میں دم کرکے ان پر زندگی کے سارے دروازے بند کر رکھے ہوتے ہیں۔
لہٰذا عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی والدین اپنے بچوں پر سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے دباؤ بڑھا دیتے ہیں اور وہ ماسٹرز ڈگری کے باوجود معمولی سی معمولی سرکاری نوکری کو حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں سرکاری نوکری کے لئے پولیس اور محکمہ مال اولین ترجیح ہوتے ہیں کیونکہ مقامی سطح پر طاقت میں توازن کے لئے انہیں دو محکموں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔
یوں تو محکمہ مال میں پٹواری سب سے نچلے درجے پر فائز ہوتا ہے مگر کیونکہ وہ زمین سے متعلق تمام ریکارڈ کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے وہ ایک ہی جنبشِ قلم سے کوائف میں ردوبدل کرکے کسی بھی زمیندار کو اپنی قیمتی اراضی سے محروم کر سکتا ہے۔ وہ اک حقیر سی طمع نفسانی کی خاطر مشترکہ زمین کی غیر مساوی تقسیم کرکے خاندان کے افراد میں خونی لڑائی کا موجب بن جاتا ہے۔ سرکاری ریکارڈ میں کی گئی اس کی ہیرا پھیری کی درستگی کے لئے قانونی چارہ جوئی میں کئی نسلیں عدالتی کارروائی کی نذر ہو جاتی ہیں اور قتل و غارتگری کا اک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پٹواری صاحب نے اپنی راجدھانی میں قائم کردہ سقہ شاہی کو مزید فروغ دینے کے لئے دو چار منشی پال رکھے ہوتے ہیں جو عوام میں اس کی دھاک بٹھانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پٹواری صاحب سے بلمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کرنے سے پہلے اس کے منشی کے ساتھ معاملات طے کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس کے منشی حضرات بھی اپنی وضع قطع اور رکھ رکھاؤ سے کم ازکم اسسٹنٹ کمشنر دکھائی دیتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں کی نسبت شہری آبادی میں زمین کیونکہ انتہائی بیش قیمت اور کمرشل نوعیت کی ہوتی ہے لہذا وہاں پٹواری توقع سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ میں مجھے متعدد بار پٹواری صاحب بہادر کی طاقت اور اختیارات کو بہت سے قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے ہیں۔ یہ بات میرے مشاہدے میں آتی رہی ہے کہ کسی بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے لئے پٹواری صاحبان کے طاقتور سفارشی حلقوں سے نپٹنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ ہر پٹواری اپنی مرضی کے سرکل میں نوکری کا خواہاں ہوتا ہے۔ بسا اوقات تبادلہ کی صورت میں احکامات کی منسوخی کے لئے کوششیں تیز کر دی جاتی ہیں اور نئے آنے والے پٹواری کو ریکارڈ دینے سے ممکن حد تک گریز کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ دو پٹواریوں کے درمیان ریکارڈ کے حصول پر باقاعدہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا اور ایک پٹواری صاحب بہادر تو جان سے جاتے جاتے رہ گئے۔
معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب سے منسوب ایک واقعہ مشہور ہے کہ بطور ڈپٹی کمشنر انہوں نے جب کسی دیہاتی بڑھیا کا جائز کام بلا تعمل کر دیا تو اس نے ازراہِ تشکّر شہاب صاحب کو دعا دی کہ اللہ کریم اسے پٹواری بنا دے۔ سول سروس میں ہمارے ایک بہت ہی سخت گیر افسر جو بعد میں وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہمیشہ اپنے آبائی گاؤں سے متعلقہ پٹواری کے ساتھ غیر معمولی نرمی دکھاتے اور اگر کبھی کسی ذاتی کام کے لئے وہ ان کے سرکاری دفتر آجاتا تو وہ اسے مکمل پروٹوکول فراہم کیا جاتا تھا۔
ایک دفعہ مجھے ملاقات کے لئے ان کے دفتر میں کافی انتظار کرنا پڑا۔ ان کے سٹاف نے بتایا کہ صاحب ایک خاص مہمان کے ساتھ مصروف ہیں جو دراصل ان کی زمینوں سے متعلقہ پٹواری صاحب تھے۔ سیکریٹری صاحب جو اپنی سنجیدہ مزاجی اور لہجے کی تلخی کی وجہ سے مشہور تھے، ان کے دفتر کے ساتھ ملحقہ ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے میں ان کے قہقہے اور خوش گپیاں اچھی طرح سے سن رہا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ خود دیکھ رکھا تھا کہ سول سروس سے تعلق رکھنے والے اپنے جونیئر افسران کو وہ اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی رخصت کرتے تھے مگر اس دن پٹواری صاحب کو الوداع کہنے کے لئے وہ آفس کی راہداری تک خود تشریف لے گئے اور اگر پٹواری صاحب انہیں منع نہ کرتے تو شاید سیکریٹری صاحب انہیں گاڑی میں بٹھا کر واپس آتے۔
یہ منظر نہ صرف سیکریٹری صاحب کے آفس میں تعینات تمام افسروں اور اہلکاروں کے لئے یکساں طور پر حیران کن تھا بلکہ میرے لئے بھی اک اچھوتا تجربہ تھا۔ اپنی ملاقات کے دوران میں نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے میں نے سیکریٹری صاحب سے ان کے خاص مہمان کے متعلق دریافت کیا تو وہ مسکرا کر فرمانے لگے کہ موصوف ان کے آبائی گاؤں کے پٹواری تھے اور ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار رکھنا ان کی ہمیشہ سے ترجیح رہی تھی۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ پٹواری صاحب کی طاقت کے سامنے وہ مکمل عاجز تھے اسی لئے وہ اس کے ساتھ غیر معمولی طور پر شائستگی سے پیش آرہے تھے۔
آپ اپنی وراثتی زمین کی ملکیت سے متعلق دستاویز اور ثبوت حاصل کرنے کے لئے جب متعلقہ پٹواری صاحب بہادر کے ساتھ ملاقات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ یقیناً آپ کی خوش قسمتی ہو تی ہے مگر بلاشبہ اس سے فرد ملکیت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کے منشی سے معاملات طے ہو جائیں تو پھر یہ دشوار گزار عمل انتہائی خوشگوار تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تمام پٹواری صاحبان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گنتی کے چند کمزور دل، دیانت دار اور خوش اخلاق پٹواری صاحبان کو اصلی والے پٹواری شاید اپنے قبیلے کے لئے باعث ندامت ہی سمجھتے ہوں گے کیونکہ ایسے نکھٹو قسم کے پٹواریوں کا شائستہ رویہ اصلی اور نسلی پٹواری صاحب بہادر کے شاہانہ طرز زندگی کے شایان شان ہرگز نہیں ہو سکتا۔