زندگی گلزار ہے یا کانٹوں کا سنسار، رنگ و خوشبو کا حصار ہے یا خزاں رت میں امیدبہار، یہ بدلتے موسموں کی تکرار ہے یا سیل وقت کے مسلسل بہتے جھرنوں کی آبشار، اس کی ان گنت اور باہمی متضاد جہتیں ہیں مگر اس کی ایک صفت ایسی ہے جس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کلی طور پر بے اعتبار ہے۔ پل بھر کا بھروسہ ہے نہ اک لمحے کا یقیں۔ جانے کب خوشی اور شادمانی سے لبریز شادیانے کسی گہرے صدمے کا نوحہ بن جائیں، گلاب چہرے اچانک بے رنگ ہو جائیں اور ہنستے بستے گھرانے ویرانوں کا استعارہ بن کر رنج وغم کی سیاہی سے لکھے افسانے بن جایئں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے خوفناک پہلو ہے اور سب سے کڑوا سچ بھی۔
ہم سب اس تلخ نوائی کا عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں اور آئے روز مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ کون ہے جو زندگی کے اس دردناک روپ سے آشنا نہ ہو۔ سب کے پاس آپ بیتی کڑی آزمائشوں پر مبنی درد کی داستانیں ہیں تو جگ بیتی اندوہ ناک داستانوں سے عبارت حادثات، رنج و الم کے مشاہدات، تجربات اور ان سے جڑے ان گنت واقعات جنہیں سننے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ زندگی موت کی امانت ہے یا موت دنیاوی زندگی کا سلسلہ ختم کرکے ہمیں حیات بعد از موت کے اس دائمی سفر پر روانہ کرتی ہے جہاں موت کا وجود نہیں۔ یہ بلاشبہ بہت گہری باتیں ہیں اور منطق، مذہب، فقہ، استدلال اور فلسفہ کے بڑے بڑے نام اس موضوع کو زیربحث لاتے رہتے ہیں اور تا ابد اس پر مختلف آرائی اور تجزیے پیش کئے جاتے رہیں گے۔
ہم نے زندگی کا یہ خوفناک روپ بچپن میں اس وقت دیکھ لیا تھا جب چند لمحات میں ہماری خواب نما خوبصورت دنیا اجڑ گئی تھی اور ابا جان محض تیس منٹوں میں دل کے جان لیوا دورے کے باعث ہمیشہ کے لئے ہمیں یتیمی کے تپتے صحراؤں کے سپرد کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ زندگی سے اعتبار اٹھ گیا تھا اور ہر طرف خوف، وحشت، بے یقینی اور بے بسی نے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ نہ کوئی راہ دکھائی دیتی اور نہ کسی منزل کی خبر تھی۔ چاروں طرف کھپ اندھیری لمبی رات جس کی صبح کی کوئی امید تھی نہ کوئی آثار نمایاں تھے۔
ہماری ماں نے آگے بڑھ کر ہماری بے رنگ زندگی میں امید وآرزو کے پھول اگائے، ان کی دل و جاں سے آبیاری کی اور برسوں کی جہد مسلسل سے اسے اک گلستاں میں بدل ڈالا۔ اس بے مثل ماں نے اپنی زندگی کی اک اک سانس ہمارے نام کر دی اور ہماری بہترین تعلیم اور مثالی تربیت کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھی تھی۔ سات یتیم بیٹوں کو کامیابی کی شاہراہ پر ڈالنے کی فکر اور ذہنی تناؤ کے باعث اپنی صحت، سکون اور آرام کی پرواہ نہ کی تو صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہوئیں مگر وہ اپنی مضبوط قوت ارادی سے کئی بیماریوں سے بنردآزما ہوتی رہیں۔ بلآخر گزشتہ سال چودہ دسمبر کو وہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئیں اور تب سے ہم زندگی کی ویراں راہوں کی دھول میں ماں جی کے نقش پا ڈھونڈتے پھرتے ہیں، کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ہاں مگر ان کی تصویر ہے کہ ہمہ وقت ہمکلام رہتی ہے اور محبت بھری نگاہیں ہیں کہ سامنے سے ہٹتی ہی نہیں۔
یہاں برطانیہ میں مو سم سرما کی راتیں بہت لمبی ہو جاتیں ہیں تو کاٹے سے نہیں کٹتیں۔ لوگ سر شام کھانا کھا لیتے ہیں اور جلدی سو جاتے ہیں، زندگی رک سی جاتی ہے اور چہار سو اتنی خاموشی چھا جاتی ہے کہ ڈر لگنے لگتا ہے۔ میں اس سکوت کی وحشت کے مقابلے میں پی ایچ ڈی کی تحقیقی مصروفیات کو رات ڈھلے تک کھینچ لاتا ہوں جس کے دو مقا صد ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ رات کٹے اور دوم کہ سونے سے پہلے عشاء کی نماز کے ساتھ کچھ نوافل ادا کرکے اپنے والدین کی مغفرت کے لئے بارگاہ الہی میں دعا ئیہ الفاظ کا نذرانہ پیش کیا جا سکے۔ اس کے بعد ماں جی کی وائس نوٹس سنتا ہوں جو ہر صبح وہ واٹس ایپ میں بھیجا کرتیں تھیں۔
گزشتہ شب بھی میں ماں جی کی یادوں کی پوٹلیاں ٹٹول رہا تھا کہ اچانک چھوٹے ما موں جعفر کے کچھ وڈیو کلپس سامنے آگئے جن میں وہ ماں جی کی وفات کے بعد ہمارے آبائی قبرستان میں چاردیواری اور مسجد انوار جنت کی تعمیر کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ماں جی اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں اور انہیں اپنی بہن اور دونوں بھائیوں سے بے پناہ پیار تھا۔ مجال ہے کہ وہ ان میں سے کسی کے بارے میں ایک لفظ بھی سننا گوارہ کریں۔
دو سال قبل جب بڑے ماموں کا اچانک انتقال ہوا تو انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچا اور وہی دکھ انہیں موت کے منہ میں لے جانے کا سبب بنا۔ ماموں جعفر نے ساری زندگی اپنی بڑی بہن کی تابعداری کی اور اسی تعظیم کے تسلسل میں وہ قبرستان میں جاری تعمیراتی منصوبے کی مکمل نگرانی کرتا رہا اور یوں اس کی قبر سے بھی وفا کارشتہ خوب نبھایا۔ اسے کہاں معلوم تھا کہ بہت جلد وہ خود بھی اسی چاردیواری کے احاطے کا مکیں بن جائے گا اور اپنے بھائی اور بہن کی ہمسائیگی میں آسودہ خاک ہو جائے گا۔
آج میں یہ کالم تحریر کررہا تھا کہ ہمارے فیملی واٹس ایپ گروپ میں لگاتار پیغامات موصول ہونے لگ گئے۔ میں نے پریشانی کے عالم میں ٹائپنگ کا عمل روک کر ادھر توجہ مبذول کی تو دل لرز کر رہ گیا۔ ہمارے چھوٹے بھائی ظفر حیدر کے بیٹے ضرار نے اپنے ماموں سجادگوندل کی ناگہانی موت کی دل دہلا دینے والی خبر دے رکھی تھی اور ہمارے خاندان کے تمام افراد سکتے کی کیفیت سے دوچار تھے۔ ایک انتہائی شریف النفس، کم گو اور پیارا انسان چند لمحات میں جان لیوا ہارٹ اٹیک کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔
طلعت محمود گوندل میرا بیج میٹ ہی نہیں بلکہ شروع دن سے ہمارے درمیان بھائیوں جیسا تعلق استوار ہوا جو بعد میں میری درخواست پر رشتہ داری میں بدل گیا۔ سالک بھی سول سروس میں ہمارے ساتھ آن ملا۔ سجاد بھائی نے ملکوال میں زمینداری کے ساتھ ساتھ وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور یوں اپنے آبائی علاقے کے جملہ امور اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔ ایک مرتبہ ملکوال بار کا الیکشن جیت کر سیکرٹری بھی منتخب ہوا۔ اتوار کا سارا دن وہ اسلام آباد میں اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ گزارکر واپس آبائی گھر لوٹ گیاتھا جو دراصل اس کی سب سے الوداعی ملاقات بن گئی۔ سانسوں کی مالا کب اور کہاں ٹوٹ جائے، روز ازل سے لے کر آج تک یہ راز نہ کھلا ہے اور نہ تا ابد کھلے گا۔ یہ زندگی کی سب سے زیادہ خوفناک حقیقت ہے۔ بقول شاعر
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں