میرے باباجان شیخ القرآن مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی بابا جی ؒ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے کہ ان کی ہر خوبی پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے، صرف گفتگو ہی نہیں بلکہ ہر ہر پہلو پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ میرے علاقے کا ذرہ ذرہ اس بات کی شہادت کھلے دل سے دے سکتا ہے کہ جب تک میرے بابا جانؒ زندہ رہے تب تک ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پورے علاقے پر اپنی رحمت کی چادر تان رکھی ہو۔
اب لکھنے بیٹھا ہوں تو ان کی یادوں، باتوں اور آنکھوں دیکھی کرامات سے قلب و ذہن معطر سا ہو کر رہ گیا ہے، کس کس یاد کا ذکر کروں، کس کس بات کو چھیڑوں، ان کی کون کون سی خدمات پر روشنی ڈالوں، کیا کیا کرامات بیان کروں؟ اتنا مواد ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی ہاتھ روکتی ہے، احباب کا اصرار ہے مفصل لکھوں، اس کالم میں تو ممکن نہیں، البتہ بہت جلد کتابی شکل میں اپنے باباجیؒ کی شخصیت، کردار، خدمات اور کرامات پیش کروں گا، اس پر باقاعدہ کام شروع ہوچکا ہے۔ سردست چند نمایاں پہلو قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
حضرت شیخ القرآن مولانا حمداللہ جانؒ نے دارالعلوم عربیہ مظہر العلوم کی بنیاد 1948 میں ضلع صوابی کے گاؤں ڈاگئی محلہ جونہ خیل میں اپنی پدری جامع مسجد میں رکھی۔ باباجانؒ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ پہلے سال 22 طلبا نے دارالعلوم میں داخلہ لیا، انھیں وہ اکیلے ہی پڑھایا کرتے تھے ان کے ساتھ کوئی دوسرا استاد نہیں تھا۔
باباجان اکیلے روزانہ 48اسباق پڑھاتے تھے پہلا سبق فجر سے پہلے گھر سے مسجد جاتے وقت راستے میں شروع ہوتا تھا اور آخری سبق مغرب سے پہلے ختم ہوتا تھا۔ دارالعلوم کی نئی بلڈنگ کے لیے کچھ عقیدت مندوں نے بلا معاوضہ زمین دی، باقی زمین دوست احباب اور باباجانؒ نے ذاتی پیسوں سے خریدی، ایسے ہی بلڈنگ کی تعمیر بھی عقیدت مندوں اور دوست احباب کے تعاون اورخود اپنی زمینداری و کاروباری آمدن سے تعمیر کرائی، 1988 میں ایک معیاری بلڈنگ وقت کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل ہوئی۔
دارالعلوم کی نئی بلڈنگ میں منتقلی کے بعد میرے بڑے بھائی مولانا فضل اللہ کلیم مظہری نے نائب مہتمم کی ذمے داری کے ساتھ ساتھ ظہر کے بعد تدریس شروع کی وہ عصری علوم میں ٹریپل ماسٹر اور گولڈ میڈلسٹ، محکمہ تعلیم میں پرنسپل تھے۔ ان سے چھوٹے بھائی مولانا لطف اللہ جان صادق نے بحیثیت ناظم عمومی اپنی ذمے داری نبھائی۔ باباجانؒ کی بے مثال اور انتھک جہد مسلسل اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و نصرت سے بہت کم عرصے میں مظہر العلوم بین الاقوامی سطح پر دینی مدارس کی صف میں ایک منفرد مقام حاصل کرگیا۔
افغانستان، ایران اور ترکی کے طلبا نے مظہر العلوم سے قرآن وحدیث کا علم حاصل کیا۔ ایران اور ترکی کے طلباکی تعداد کم ہوتی تھی مگر سال کے 12مہینے افغانستان کے سیکڑوں طلبا مظہر العلوم سے فیض یاب ہوتے رہے۔ شکر الحمدللہ باباجانؒ کی رحلت کے بعد مظہر العلوم میں پہلے سے بہتر انداز میں قرآن وحدیث کی ترویج و تدریس کا سلسلہ مجھ جیسے ناچیز کے زیر اہتمام اور نائب مہتمم ڈاکٹر انعام اللہ جان کی معاونت اور نگرانی میں جاری ہے۔
طلباباباجانؒ کے علمی جانشین پروفیسرشیخ القرآن و الحدیث مولانا اسد اللہ جان الداجوی المظہری القادری، شیخ القرآن و الحدیث مولانا عزیز اللہ جان مظہری، شیخ الادب مولانا روح الامین مظہری، شیخ الحدیث مولانا عطاء الرحمن مظہری اور دیگر علماء کرام اساتذہ سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
مقیم طلباکی کثیر تعداد باقاعدہ عصری علوم کے لیے قریبی گورنمنٹ ہائی اسکول جاتی ہے جس کے تمام اخراجات مظہر العلوم کے ذمہ ہیں۔ طلباء کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے موجودہ بلڈنگ کم پڑ گئی ہے، اضافی زمین کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
بابا جانؒ کی پوری زندگی ایک جہد مسلسل کی مانند تھی، رات عشاء کے بعد ضرور مطالعہ کرتے تھے اپنے دارالعلوم کے اساتذہ اور طلباء کو نصیحت فرماتے تھے کہ کبھی بغیر تیاری کے پڑھانے نہ بیٹھنا، پوری زندگی کبھی کوئی کتاب پڑھاتے وقت ادھورا نہیں چھوڑتے، حالانکہ وہ صحاح ستہ کی ساری کتب خود پڑھاتے تھے ایک سال تو مولانا عنایت اللہؒ (حضرت کے بھانجے) کی وفات پر ان کی کتب بھی خود پڑھائی۔ رمضان المبارک کے دوران تفسیر القرآن کا درس صبح شروع ہوکر دسمبر ہو یا جنوری دوپہر تک جاری رہتا تھا مگر کبھی پیاس کی شکایت نہیں کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میرے بابا جانؒ کے علمی گلشن مظہر العلوم کو عصری اور دینی علوم کے منبع کے طور پر تا قیامت آباد رکھے۔
میرے باباجانؒ کا جہاں تعلیمی میدان میں ایک منفرد مقام تھا وہاں روحانیت کی دنیا میں بھی ان کی الگ پہچان تھی، وہ چاروں سلاسل میں خلافت رکھتے تھے مگر اجازت سلسلہ قادریہ میں ہی دیتے تھے، شروع شروع میں تو بیعت کروانے میں بہت سخت تھے صرف علماء کو بیعت کرواتے تھے عوام کو بالکل نہیں کیونکہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ روحانی نسبت بغیر علم کے بعض اوقات نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اگر علماء اور اپنے شاگردوں میں سے کوئی بیعت کے لیے اصرار کرتا تو دوسرے اکابرین سے بیعت کرنے کا مشورہ دیتے تھے مگر پھر بھی کوئی ضد کرتا تو استخارہ کا مشورہ دیتے اور پھر اس کے استخارہ کی بنیاد پر فیصلہ کرتے۔ میں نے 1996ء میں، میں نے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تومجھے مولانا عبد الحفیظ مکیؒ یا قاری بشیر احمد مدنی صاحب پیرسباق سے بیعت ہونے کا مشورہ دیا مگر میں نے ضد کی تو فرمایا"صبر کریں ابھی وقت ہے"۔
2008 میں حج پر جانے سے پہلے میں نے پھر کہا تو فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب سے بیعت ہونا اور قاری بشیر احمد صاحب پیرسباق بھی حج پر جارہے ہیں ان سے بیعت ہونا۔ حج سے پہلے عبدالحفیظ مکیؒ کے ہاں حاضر ہوئے تو ملتے ہی پوچھا اشفاق جان حج سے پہلے بیعت ہونا ہے کہ بعد میں؟
میں نے کہا حضرت ابھی اسی وقت توحضرت نے توبہ اور بیعت کے کلمات پڑھائے، حج کے بعد مسجد نبوی میں قاری بشیر احمد صاحب پیرسباق سے ملاقات ہوئی تو میں نے بیعت ہونے کی درخواست کی انھوں نے کہا کہ شیخ صاحب سے بیعت ہوجائیں میں نے عرض کیا کہ یہ ان کا حکم ہے تو فوراً مجھے انھوں نے بھی بیعت کے کلمات پڑھائے اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے روحانی سفر کا آغاز حرمین شریفین سے شروع کرایا، حج سے واپسی پر مجھے کہا کہ آؤ بیٹھو اور خود ہی توبہ اور بیعت کے کلمات پڑھائے اور اذکار و اسباق شروع کروا دیے۔ بیعت کے فوراً بعد میں نے عجیب الٹیاں کی اور پوری رات سخت بخار رہا۔
یہ بات مجھے باباجانؒ کے تین اور مریدین نے بتائی کہ بیعت کے فوراً بعد انھوں نے بھی الٹیاں کی تھی اور ساری رات سخت بخار میں مبتلا تھے۔ پھر مجھے باباجانؒ کے شاگرد رشید اور اجل خلیفہ مجاز شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا عزیز اللہ جان مظہری نے بتایا کہ یہ الٹیاں اور بخار اندرونی صفائی کا آغاز ہے۔ میرے باباجانؒ ہر جمعرات کے دن دارالعلوم عربیہ مظہر العلوم کے دارالحدیث میں ذکر کی محفل میں اپنے مریدوں کے دلوں کو منور کرتے رہے، بیماری اور ضعف کی وجہ سے اپنے پوتے اور لطف اللہ جان صادق کے بیٹے منیب احمد سے ذکرجہری کروالیتے تھے۔ شکر الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جس میں باباجانؒ کے مریدین کی کثیر تعداد باقاعدگی سے شریک ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ باباجانؒ کی خانقاہ کو تاقیامت آباد رکھے۔
بابا جانؒ نے سیاست کے لیے اکابر علماء کی جماعت جمعیت علماء اسلام کا انتخاب کیا، کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جس کا اوڑھنا بچھونا اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے سوا کچھ نہیں۔ 1971 میں مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لیا اور" نیپ "کے ایک مضبوط امیدوار امیر زادہ خان کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ کیا اور بہت کم ووٹوں سے ہار گئے، وجہ خواتین کے پولنگ اسٹیشنز پر بے انتہا دھاندلی تھی کیونکہ پورے حلقے میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر بابا جانؒ کا کوئی ایک پولنگ ایجنٹ نہیں تھا مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹس اور انتخابی عملے کو کھل کر دھاندلی کا موقع ملا اور انھوں نے پورے کے پورے ووٹ اپنے امیدوار کو ڈال دیے۔ انتخابات ہارنے پر بھی سجدہ شکر ادا کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امتحان سے بچالیا۔ اصول پسندی کا یہ عالم رہا کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کو غیر شرعی قرار دیا۔
دوستوں اور معتقدین کے پرزور اصرار کے باوجود الیکشن میں حصہ نہیں لیا، 1988کے انتخابات میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے اے این پی کے عبدالخالق خان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بہت کم ووٹوں سے ہارے، ہمارے ہاں یہ روایت نہیں تھی کہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں پولنگ اسٹیشنز پر آئیں۔ باباجانؒ کے خواتین پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ایجنٹس بھی نہیں تھے۔ اس لیے ایک بار پھر صرف خواتین کے پولنگ اسٹیشنزپر مخالف ایجنٹس نے باباجانؒ کے خلاف ووٹ ڈلوائے۔
(جاری ہے)