امریکی ریاست منی سوٹا میں مبینہ طور پر چوری کے الزام میں گرفتار سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس حراست میں ہلاکت کا اندوہناک واقعہ پیش آیااور اس وقوعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی مقامی سطح پر احتجاج کی ایک لہر اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے متحدہ ریاست ہائے امریکا کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منی سوٹا سے واشنگٹن ڈی سی تک جہاں دیکھو انسانوں کا سمندر نظر آتا ہے۔
ایک شہری کی ہلاکت پر ہرامریکی شہری سراپا احتجاج بنا ہوا ہے گوکہ قتل سیاہ فام کا ہوا ہے اور احتجاج کرنے والے بھی زیادہ تر سیاہ فام ہی ہیں لیکن انسانی ہمدردی کے ناتے سفید فام بھی مظاہرین کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں اور خلاف قانون اس اقدام پر یوں ردعمل کا اظہار کررہے ہیں جیسے منی سوٹا پولیس نے ایک شہری کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کا قتل کردیا ہو۔
زندہ قومیں اسی ظلم کے خلاف کھڑی ہوا کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ طاقت کی علامت سمجھا جانے والا وائیٹ ہاوس ہزاروں مظاہرین کے محاصرے میں ہے اور دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی شخصیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سفید عمارت کے اندر محصور ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ اطلاعات یہ آرہی ہیں کہ انھیں وائیٹ ہاوس کے تہہ خانے میں ایک انتہائی محفوظ بنکر میں منتقل کردیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بنکردنیا کا محفوظ ترین مقام ہے۔ ایک شہری کے بہیمانہ قتل پر سارا امریکا جل رہا ہے، امریکی شہر اورشاہراہیں اپنے ہی شہریوں کے لہو سے رنگین ہوچکی ہیں، جہاں دیکھو شہری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آمنے سامنے ہیں۔ اسے ابلیس کی مجلس میں ہلچل کا منظرقرار نہ دیا جائے تو کیا عنوان دیا جائے؟ طاقت اور غرور کے نشے میں بدمست امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ جو ساری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلا ہوا تھا آج اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں کے ہاتھوں بے بس نظر آرہا ہے، جو اسے عبرت کا نشان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ ہے وہ منظر جو زندہ قوموں اور زندہ معاشروں کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 32 میں ارشاد ربانی ہے :
"اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔" ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے اﷲ پاک کے اس فرمان عالی شان کو ہم سے زیادہ دیگر اقوام کے لوگوں نے سمجھاہے اسی لیے وہ انسانی جان کی حرمت کے لیے پوری طاقت سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخر ہمارے اندر سے یہ جذبہ کیوں ختم ہوگیا؟
ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمارے سامنے بے گناہ لوگوں کو مارا جارہا ہوتا ہے اور ہم یا تو ظالم کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں یا پھر خاموشی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ کیا عراق سے لے افغانستان تک ہمارا یہی رویہ نہیں رہا؟ ہم اچھی طرح اس بات کو جانتے تھے کہ ہم جن کے ساتھ کھڑے ہیں وہ ہم سے اس ساتھ کی قیمت لگائے بیٹھے ہیں اور اس ساتھ میں ہم جن کے خلاف ہوگئے ہیں وہ ہم سے مخالفت کا معاوضہ مانگتے ہیں۔
تاریخ نے ثابت کیا کہ ہمیں ہر دونوں کو ادائیگی سروں کی جنس میں کرنا پڑی۔ ستر ہزار لاشیں گریں لیکن ایک بھی ایسا مظاہرہ نہیں ہوا جیسا مظاہرہ منی سوٹا میں ایک سیاہ فام کے قتل پر ہورہا ہے۔ ہماری بے حسی صرف یہاں تک محدود نہیں، اس کا اندازہ تو اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری انتہائی مقدس شخصیات کے مزارات، قبور اور باقیات کی بے حرمتی کاناپاک سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہم اس پر بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
گزشتہ دنوں شام کے صوبہ ادلب کے شمال مشرقی علاقے میں بنو امیہ سے تعلق رکھنے والی عالم اسلام کی عظیم شخصیت امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک، ان کی زوجہ حضرت فاطمہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے خادم کی قبروں پر دہشت گردوں نے حملہ کیااورقبر سے جسد مبارک کو نکال کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ بلاشبہ یہ پورے عالم اسلام کے لیے انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن خبر تھی، امید کی جارہی تھی کہ عالم اسلام بالعموم اور پاکستان کی دینی قوتیں بالخصوص اس پر شدید ردعمل کا اظہار کریں گی اور حکومت پر زور دیں گی کہ اس واقعہ کو او آئی سی کی سطح پراٹھایا جائے لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔
پاکستان میں صف اول کی کسی دینی جماعت نے اتنے بڑے واقعہ پر پرزور ردعمل کا اظہار نہیں کیا البتہ چھوٹی جماعتوں کی جانب سے بیانات اور پریس کانفرنسیں ضرور دیکھنے میں آئی ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے، جن نازک مواقع پر امت مسلمہ کو تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوتا ہے وہاں ہم انتشار کا شکار نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ اپنے نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھااس سے پہلے بھی عالم اسلام کی مقدس شخصیات کے مزارات پر دہشت گرد حملے ہوئے اور اس وقت بھی امت مسلمہ نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس بار انھوں نے ناصرف حضرت عمر بن عبدالعزیز، ان کی اہلیہ فاطمہ اور خادم کی قبروں کی بے حرمتی کی بلکہ ان کے جسد اطہر کو نکال کر جلایاجو ناقابل برداشت جرم ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اسلامی دنیا کے وہ عظیم اور صالح حکمران تھے جنھوں نے اﷲ کی زمین پر انصاف کا علم بلند کیا، جس کی بنا پر انھیں خلفائے راشدین کے بعد عادل حکمران قرار دیا جاتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ اتنی عظیم شخصیت کی قبر اور جسد اطہر کی بے حرمتی نے دنیا بھرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل اس افسوسناک واقعہ پر اضطراب کا شکار ہے۔ دہشت گردوں سے اب مقدس شخصیات کے مزارات بھی محفوظ نہیں رہے۔
پندرہ، بیس سال سے تکفیری اورمتشدد گروہ مزارات و مساجد کی توہین کرتے چلے آرہے ہیں لیکن یہ واقعہ اس لیے بھی افسوسناک ہے کہ اس میں مقدس شخصیات کے جسد اطہر کو قبروں سے نکال کر جلایا گیا۔ یہ صورتحال امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اگر امت امسلمہ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت زینبؓ کے مزارات کی بے حرمتی پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ نہ کرتے تو دہشت گرد گروہوں کی آج یہ جرات نہ ہوتی۔ لیکن اب اس واقعہ پر امت مسلمہ کو غفلت کی چادر اتارنا ہوگی اور متحد و منظم ہوکر ناپاک جسارتوں کے اس سلسلے کے آگے بند باندھنا ہوگا۔ اگر اس بار بھی غفلت کا مظاہرہ ہوا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اس سلسلہ میں ستاون اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم او آئی سی کو آگے بڑھنا چاہیے، اس وقت اسلامی سربراہی کانفرنس کی قیادت مملکت سعودی عرب کے پاس ہے، اس لیے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس نازک صورتحال پر او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلانا چاہیے اور تمام اسلامی ممالک۔ کو ایک موقف اپناتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم کسی صورت اپنی مقدس شخصیات کی بے حرمتی نہیں کرنے دیں گے، مقدس شخصیات کی تعظیم ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہم کسی کو اپنے ایمان پر حملہ آور ہرگز ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔