میرے باباجان شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی ؒ کے دل میں پاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے تو یہ ہمیں کلمہ طیبہ کی طرح ہی محبوب ہے اور اس کی حفاظت ہم پر کلمہ طیبہ کی طرح لازم ہے مگر وہ ہمیشہ پاکستان کے بارے فکر مند رہتے اور کہتے کہ اس ملک کا نظام جس سمت جارہا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو ملکی سالمیت کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں گے۔
وہ رب کی دھرتی پر رب کانظام دیکھنا چاہتے تھے اور اسی کے لیے تمام عمر جدوجہد کی۔ آپؒ طب نبوی کے ماہر تھے، تقریباً 1970تک طب نبوی کے ایک نامی گرامی حکیم تھے مگر سیاسی طور پر متحرک ہونے کے بعد مطب کو خود وقت دینا ناممکن رہا اور اپنے ایک شاگرد رشید مولانا منفرق شاہ (مرحوم) جن کی پوری پرورش باباجانؒ نے خود کی تھی کے حوالے کیا۔ اﷲ کی دکھی مخلوق کی خدمت کا کوئی موقع ضایع نہ کرتے، زلزلے کے متاثرین ہوں یا سوات آپریشن کے متاثرین یا سیلاب کے متاثرین اپنے سرپرستی میں دارلحمد ویلفئیر ٹرسٹ کے ذریعے بہت بڑے پیمانے پر امدادی اور بحالی کے لیے کوششیں کیں۔
میرے باباجانؒ نے حج بیت اﷲ کے دوران حرمین شریفین میں بھی قرآن و حدیث کے تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ مسجد الحرام میں مکہ مکرمہ کے گورنر، قاضی القضاء، پولیس چیف، خطیب مسجد الحرام اور دوسرے سعودی حکام کی موجودگی میں خیبرپختونخوا کے ایک معروف مولاناکے ساتھ انکا ایک تاریخی مناظرہ ہوا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو فتح سے سرفراز کیا۔ شیخ العجم تو وہ تھے ہی اپنے اکابرین کی طرف سے شیخ العرب کا لقب بھی عطا ہوا۔ اسی مناظرہ کی وجہ سے ان کے مشہور زمانہ تصنیف "لبصائر" کو ترکی کی حکومت نے اپنی نگرانی میں چھاپ کر پوری دنیا میں پھیلا دیا۔
اللہ کے کرم سے میرے باباجانؒ کو یہ سعادت بھی ملی کہ سفر حج کے دوران بحیرہ عرب کے پانیوں پر تیرتے ہوئے سفینہ حجاج میں جاتے اور آتے وقت تفسیر قرآن ختم کیا اور سارے حجاج اور عملہ باباجانؒ کے شاگرد بنے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے اکثر بڑے لیڈر اور اکابرین میرے باباجان کے شاگرد تھے۔ اس تمام عرصے کے دوران حضرت کو طالبان کے مذہبی اور روحانی پیشواکی حیثیت حاصل رہی، وہ واحد عالم دین تھے کہ طالبان دور حکومت میں ملا محمد عمر کی خصوصی درخواست اور ملامحمد عمر کے ترجمان اور وزیر تعلیم و مذہبی امور اپنے شاگرد رشید مولانا امیر متقی صاحب کے اسرار پر جامعہ فاروقیہ (جسے افغانستان کا دارالعلوم دیوبند سمجھا جاتا تھا) میں پہلے شیخ القرآن و الحدیث کی حیثیت سے تدریس شروع کر دی، دورہ حدیث میں 1200سو زیادہ طلباء مختلف ممالک کے شامل تھے۔
ریڈیو شریعت کابل سے تفسیر قرآن اور درس بخاری براہ راست مسلسل نشر ہوتا رہا۔ مختلف محاذوں پر خدمات انجام دینے والے مجاہدین کے لیے مخابرے (وائرلیس) پر سننے کا بندوست کیا گیا۔ آپ گیارہ ستمبر کے واقعے کے دوران کابل میں موجود تھے۔ افغانستان پر امریکی حملوں کی تیاریوں کے دوران بھی وہ درس و تدریس کا کام بلا خوف و خطر جاری رکھے ہوئے تھے۔
افغانستان پر امریکی جارحیت کے دوران وہ کابل میں ختم بخاری شریف کی ایک تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھے، افغان مجاہدوں کے منع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر تیاریاں جاری رکھیں کہ وہ موت کے خوف سے ختم بخاری کے انعقادسے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، آپؒ طالبان لیڈروں کی درخواست کے باوجود امریکی حملوں کے ابتدائی دنوں میں کابل میں ہی مقیم رہے۔
دفاع افغانستان کونسل اور متحدہ مجلس عمل افعانستان سے وطن واپسی کے بعد وہ دفاع افغانستان کونسل کے انتہائی سرگرم رہنما رہے، انھوں نے 2002کے انتخابی مہم کے دوران پیرانہ سالی کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
باباجان حضرت اقدسؒ کا معمول تھا کہ وہ کھانے پر (خاص طور پر دوپہر) مہمان کا انتظار کرتے تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس خواہش کی خاطر ہمیشہ کسی نہ کسی کو ان کا ہم نوالہ بننے کے لیے بھیج دیتے، ہمیشہ مہمان کو اپنے ہاتھ سے کھانا، پانی اور چائے پیش کرتے تھے اور ہمیں کہا کرتے تھے کہ مہمان پلیٹ میں نہیں میزبان کے پیشانی میں کھاتے ہیں لہذا گھر میں جو پکا ہو وہ پیش کرنا مگر محبت اور خندہ پیشانی کے ساتھ۔ باباجانؒ ہمیشہ انتہائی کم مگر اچھا کھانا کھاتے تھے، جب مکمل صحت مند تھے کبھی ایک چوتھائی روٹی سے زیادہ کھاتے نہیں دیکھا، بہت کم چائے پیتے تھے۔
ان کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی ان سے کوئی بچہ مصافحہ کرتا اس کو ٹافی یا چند روپے ضرور دیتے۔ عیدین پر یہ معمول تھا کہ پورے خاندان کے افراد کے علاوہ سیکڑوں لوگ عید ملنے آتے تو سب کو دس دس روپے عیدی دیتے اور لوگ انکے دیے ہوئے نوٹ کو اپنے پرس میں محفوظ رکھتے تھے۔ میں نے تو انکے دیے ہوئے نوٹ گزشتہ 40 سال سے سنبھال کر رکھے ہیں اور میں ان کو پیسوں کی ماں کہتا ہوں۔
میرے باباجان پدرانہ شفقت کی معراج پر رہے مگر محبت اور غصے کے اظہار میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پوری زندگی مجھ پر کبھی ہاتھ اٹھایا نہ کبھی پیار سے چوما۔ انکے ہاتھ کا پنکھا، سائیکل اور کندھے پر لٹکتی واسکٹ انکی سادگی اور درویشی کی نشانیاں تھیں، وہ ہر موقعے اور ہر مجلس میں بھرپوراعتماد، استقامت کے معراج پررہتے تھے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میرے بابا جانؒ کے شاگردوں میں جنات کی کثیر تعداد شامل ہے، جو بابا جانؒ سے درس و تدریس حاصل کیا کرتے تھے۔
ان کے چاہنے والوں کی تعداد تو بیشمار مگر دشمن اور بدخواہ بھی کافی تھے مگر میرے باباجانؒ بدخواہوں کے لیے بھی دعا کرتے تھے، اگر کوئی بدقسمت باز نہ آتا اور حد سے بڑھ جاتا تو انکے پیچھے قہری ختم کرکے منتقم رب العالمین کے حوالے کرتے۔ اور اس کے بعد ہم نے ان کے کئی بدخواہوں کو نشان عبرت اور اﷲ کے قہر کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ علاقے کے لوگ اس کے گواہ ہیں۔
میں نے اپنی زندگی میں باباجانؒ جیسے مستجاب الدعوات شخصیت نہیں دیکھی۔ انکے کے پاس تو سیکڑوں لوگ روزانہ دعا لینے آتے تھے مگر میرے بڑے بیٹے محمد ابوبکر کے شادی پر میرے ادارے ایکسپریس میڈیا گروپ کے پرنٹنگ پریس کے چار بے اولاد افراد نے ان سے دعا کی درخواست کی تو بابا جانؒ نے ان کے لیے دعا کی اورچینی دم کر کے دی اور ان سب کوایک وظیفہ بھی بتایا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سب افراد کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ لوگ جب بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کی طرف دوڑتے ہیں مگر ہم پہلے ان سے ملتے یا فون پر دعائیں لیتے اور اس کے بعد ڈاکٹر کے پاس جاتے تھے۔
ایسے ہزاروں واقعات ہیں۔ ان کے وظائف اجازت سمیت موجود اور تیر بہ ہدف ہیں مگر باباجان کے رحلت کے بعد جب مجھ پر خود کوئی پریشانی اور سخت وقت آتا ہے تو لگتا ہے کہ سرپر آسماں اور پیروں تلے زمین نہیں۔
14 دسمبر 2018کی تاریخ کو درس بخاری کے بعد طبیعت خراب ہوگئی جو ہمیں معمول کی بات لگ رہی تھی مگر میرے بڑے بھائی ڈاکٹر انعام اللہ جان جو بابا جان کے لاڈلے معالج تھے وہ بہت پریشان تھے۔ اگلے دن میرے بھانجے فواد کی شادی تھی مگر ڈاکٹر انعام نے فوراً کویت ٹیچنگ اسپتال میں داخلے کے لیے روانہ ہونے کا کہا اور ہم نے اسی دن پشاور کے بہترین فزیشن ڈاکٹر فرید اللہ شاہ کی نگرانی میں میڈیکل آئی سی یو میں داخل کروایا، ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ گردوں کا مسئلہ ہے اور چند دنوں میں بات ڈائیلیسئیز کے صبر آزما مرحلے میں داخل ہوئی اور آخر کار 12جنوری 2019 کو عصر کے وقت باباجان کی طبیعت خراب ہوگئی۔
آخری لمحات میں پیر طریقت رہبر شریعت مولانا قاری بشیر احمد مدنی، امیر ختم نبوت مردان قاری اکرام الحق صاحب اور پیر طریقت رہبر شریعت مولانا اعزازالحق صاحب شاہ منصوری نے باری باری بہ آواز بلند سورہ رحمٰن، سورہ یاسین اور سورہ ملک سنائی اس دوران بابا جان کے ہونٹ بہت سکون کے ساتھ حرکت کرتے رہے۔
جب تلاوت کرنے والے سانس لینے رکتے تو باباجان کے ہونٹوں کی حرکت رک جاتی، اس دوران میں آب زمزم سے انگشت شہادت سے باباجان کے ہونٹ تر کرتا رہتا۔ جیسے ہی ہم سب نے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت سنایا باباجان نے انگشت شہادت کو حرکت دی اور روح ایسے سکون سے پرواز کر گئی کہ نفس مطمئنہ کی پہچان کروا دی، اور اسی وقت آسمان پر کالے بادل چھائے اور طوفانی بادو باران نے ایک خوف طاری کردیا، قاری بشیر احمد مدنی فرمایا کہ یہ روایات کے مطابق وقت کے قطب یا ابدال کی رحلت کی نشانیاں ہیں۔ پتہ نہیں باباجان قطب تھے کہ ابدال، مگر ہمارے پیروں سے زمین اور سروں سے آسمان کھسک گیا۔
باباجانؒ کا جنازہ ان کے علمی جانشین شیخ القرآن و الحدیث مولانا اسد اللہ جان الداجوی المظہری القادری نے پڑھایا۔ میڈیا کے مطابق باباجانؒ کا جنازہ تاریخ کا بڑے جنازوں میں سے ایک تھا، جنازہ گاہ سے قبرستان تک کا فاصلہ 2کلومیٹر سے کم تھا مگر ایمبولینس نے یہ فاصلہ کم وبیش ایک گھنٹے میں طے کیا۔ اللہ کریم باباجانؒ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین، ثم آمین یا رب العالمین۔)