وزیر اعظم مستعفی ہوں، ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں، 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ قابل برداشت نہیں، ملک گیر احتجاجی تحریک، جنوری 2021 میں فیصلہ کن لانگ مارچ کا انعقاد، پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کا قیام، حکومت کی تبدیلی کے لیے عدم اعتماد کی تحریک، اسمبلیوں سے استعفے۔ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے ان اہم فیصلوں نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔
حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی بے چینی، وزراء کے چہروں کی اڑی ہوئی رنگت اور ان کی آگ برساتی زبانیں اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ تیر ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس سے مسلم لیگ کے قائد اور تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا جبکہ مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف، بلاول بھٹوزرداری، محمود خان اچکزئی، پروفیسر ساجد میر و دیگر نے اپنی اپنی جماعت کے وفود کے ساتھ اے پی سی میں شرکت کی، اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ نے جہاں حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے وہاں غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پسنے والے عوام کو امید کی کرن بھی دکھا دی ہے۔
ورنہ بڑی اپوزیشن جماعتیں جس طرح مفادات کے کھونٹے سے بندھی دکھائی دے رہی تھیں اور حکومت کے خلاف اپوزیشن کے بجائے ایک دوسرے کی مخالفت پر تلی ہوئی تھیں ان کے اس طرز سیاست سے عوام بری طرح مایوس ہوچکے تھے۔
اگر گزشتہ دو برسوں کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس بحرانی صورتحال میں مولانا فضل الر حمان ہی مردِ میدان بن کر کھڑے رہے، گزشتہ دو سال سے اگر کسی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں، ان کے انداز سیاست، ان کے تدبر و دانائی اور دور اندیشی کے آگے ایک بار پھر ملک کی بڑی جماعتوں اور ان کے قائدین کو ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا پڑا، وقت نے ایک بار پھر ثابت کردکھایا کہ مولانا فضل الرحمان گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی ہیں اور فی زمانہ وہی امام سیاست ہیں۔
جن خدشات کا اظہار وہ دو سال پہلے کرچکے تھے پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے انہیں آج تسلیم کیا۔ مولانا نے اے پی سی میں اپنے خطاب کے دوران مفادات کے کھونٹے سے بندھی بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو ناصرف جھنجھوڑا بلکہ انہیں بند گلی سے نکلنے کا راستہ بھی دکھایا۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولانا کی ذات نے اس وقت اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست کے نظم کیساتھ جوڑ رکھا ہے اور حکومتی اداروں کی طرف سے زیادتی، تشدد اور ہر طرف سے تنگ کرنے کے باوجود بھی وہ سارا طبقہ پرامن رہاہے، جس کا ربط مولانا کی سیاسی فکر کیساتھ ہے۔ آزادی مارچ اور اسلام آباد دھرنے نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس اسٹریٹ پاور ہے تو اس کا نام جمعیت علماء اسلام ہے اور اب صرف مذہبی طبقہ ہی نہیں غیر مذہبی طبقہ بھی مولانا کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرتے دکھائی دے رہا ہے۔
اس وقت مولانا فضل الرحمان کے ایک ایک اشارے پر لاکھوں افراد سڑکوں پر آکر ملک کا نظام مفلوج کرسکتے ہیں لیکن مولانا نے ہمیشہ جمہوری و آئینی جدو جہد کو اہمیت دی، ہم نے ان کی جدوجہد کو کبھی آئین و قانون کے دائرے سے باہر جاتے نہیں دیکھا۔ مولانا نہایت سوچ بچار کے بعد کسی مسئلے پر اپنا موقف بناتے ہیں اور پھر اس پر جبل استقامت کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مولانا نے ہمیشہ اور برملا کہا کہ ہمیں شریعت چاہیے لیکن بندوق کے زور پر نہیں، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ذریعے۔ انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی بندوق اٹھانے کی دھمکی دی نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
2018 کے انتخابی نتائج کو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام سمیت اکثر سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا تھا لیکن مولانا نے دھاندلی زدہ ان انتخابات کے خلاف جتنی توانا آواز اٹھائی یہ توفیق کسی اور لیڈر کا مقدر نہ بن سکی، وہ پہلے دن موجودہ اسمبلیوں کو جعلی اسمبلیوں کا نام دے رہے ہیں، جس طرح ایف اے ٹی ایف قانون ایوان سے پاس کرایا گیااس نے مولانا کے خدشات کو درست ثابت کردیا، آج دو سال بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو مولانا کی آواز میں آواز ملانا پڑگئی اور ان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن پر آمادگی کا اظہار کرنا پڑا۔
جو جماعتیں اس آپشن کی مخالفت کرتی رہیں، آج ان کی خلاصی کا راستہ یہی ہے، اگر اس بار بھی ان بڑی سیاسی جماعتوں نے اپوزیشن کو دھوکا دیا اور اپنے مفادات کے پیچھے بھاگنے کو ترجیح دی تو اس کے نتائج وہ خود بھگتیں گی۔
بعض احباب ورطہ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی ملک کی دو بڑی جماعتیں سخت اپوزیشن کے کردار پر آمادہ کیسے ہوگئیں، اس ضمن میں عرض کردیتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان پہلے دن سے موجودہ اسمبلیوں کو جعلی اسمبلیاں قرار دے رہے تھے لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ان کے اس موقف کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں، لیکن گزشتہ دو سال کے دوران پارلیمنٹ کے کردار نے ان کی بات پر سچائی کی مہر لگا دی ہے، کئی مواقعے ایسے آئے جب پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا گیا، اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدلا گیا، چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق بل تک ہر اہم موقعے پر اکثریت کو بلڈوز کیا گیا اور اقلیت کو اکثریت بنا کر پیش کیا گیا۔
ان چیزوں نے اپوزیشن کو سخت فیصلوں پر مجبور کردیا۔ ایف اے ٹی ایف بل بظاہر گرے لسٹ سے نکلنے اور بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے کی گئی، لیکن حقیقت یہ کہ یہ بل بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اس وقت دنیا میں ایران اور جنوبی کوریا دو ملک ہی بلیک لسٹ میں شامل ہیں، آخر پاکستان میں ایسے کیا حالات اور معاملات پیدا ہوگئے ہیں کہ ہمیں بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ تھا؟ اگر ایسا کوئی خطرہ تھا تو یہ حکومت کی سفارتی نالائقی اور نا اہلی ہی کا سبب ہوسکتا یے۔ ورنہ حالات تو ایسے ہرگز نہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی کسی تجویز کو قبول نہیں کیا گیا، کسی رکن کو بات تک نہیں کرنے دی گئی، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بولنے کی کوشش کی لیکن انہیں بھی اسپیکر قومی اسمبلی نے بولنے کا موقع نہ دیا، اس قانون کے لیے دستور اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے مروجہ طریقے کو پامال کیا گیا ہے۔
جس بل میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ترامیم تجویز کیں اس بل کا نام ہے" اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری وقف پراپرٹی بل " اس بل کے مطابق ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے کسی حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 199 کے خلاف ہے۔ اوقاف کی رقم سے ایڈمنسٹریٹر اسکول اور سڑکیں بنا سکتا ہے۔
حالانکہ اوقاف کی رقم اس مقصد کے لیے ہوتی ہے جس کے لیے وقف کیا گیا ہو، اس بل کے مطابق اوقاف کے مدرسوں اور مسجدوں میں سیاسی خطبوں پر پابندی ہوگی۔ کل کلاں مسجد میں ناموس رسالت پر خطبہ دیاگیا تو آپ کہو گے کہ یہ سیاسی ہے۔ اسرائیل کے خلاف مسجد اقصٰی کے بارے خطبہ ہو تو کہا جائے گا کہ یہ سیاسی ہے، آئین کے آرٹیکل 19 میں فریڈم آف اسپیچ کی جو آزادی دی گئی ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا، اس قانون سازی کے ذریعے اس پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کسی بھی آزاد اور خود مختار ممالک میں اس طرح اور ایسے قوانین نہیں بنائے جاتے، یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ ہماری حکومت کس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور ہمیں کس جانب لے کر جانا چاہتی ہے۔ ان حالات میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا مل بیٹھنا اور ایک مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق خوش آئند ہے لیکن ضرورت اس پر عمل در آمد کی ہے، ماضی میں جس طرح طے شدہ معاملات سے انحراف کی پالیسی اختیار کی گئی اس سے بد اعتمادی پیداہوئی اسی لیے مولانا فضل الرحمان نے تحریری معاہدے پر زور دیا۔
آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملکی سیاست ایک نئی ڈگر پر نظر آرہی ہے، آیندہ پانچ ماہ ملکی سیاست کے لیے نہایت اہم ہوں گے۔ مارچ سے پہلے مارچ سے سیاسی ہلچل میں اضافہ ہوسکتاہے لیکن اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ناقابل اعتبار ہیں، مولانا محتاط رہیں۔