کورونا کی آڑ میں جس قسم کی پابندیاں مساجد و مدارس اور اجتماعی عبادات کی ادائیگی پر عائد کی گئیں ایسی پابندیاں معاشرے کے کسی اور شعبے پر دکھائی نہیں دیں۔ جس دن مساجد و مدارس کو بند کرنے کی باتیں شروع ہوئیں ہم اسی دن سے کہہ رہے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اگر یہ خدشات غلط تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہر شعبہ لاک ڈاون ایسی پابندیوں سے آزاد ہوچکا ہے لیکن مساجد و مدارس ابھی تک پابندیوں کی ضد میں ہیں۔ ان پابندیوں نے رمضان المبارک ایسے نیکیوں کے موسم بہار کی بہاروں سے مسلمانوں کو محروم رکھا۔ اس بابرکت مہینے میں مساجد میں باجماعت نمازوں، جمعہ کے اجتماعات، اعتکاف، لیلۃالقدر و ختم قرآن کے روح پرور اجتماعات تک نہیں ہونے دیے گئے اور شنید ہے کہ جمعۃ الوداع اور نماز عید الفطرکے اجتماعات پر بھی پابندیوں کی منصوبہ بندی تیار ہے۔
یہ کیسا اسلامی ملک ہے اور یہ کیسی ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت ہے جو بازار، منڈیاں، شاپنگ پلازے، کارخانے، پبلک ٹرانسپورٹ، ہوائی جہاز اور ریل گاڑیاں کھولنے کی اجازت تو دے رہی ہے لیکن اللہ کو راضی کرنے کے لیے مساجد و مدارس کا لاک ڈاون ختم کرنے کو تیار نہیں۔ صدر مملکت ایس اوپیز پر عملدر آمد کے لیے مساجد میں جاتے نظر آئے لیکن کبھی کسی بازار، منڈی، شاپنگ مال کا جائزہ لیتے دکھائی نہیں دیے۔
کس احمق نے حکمرانوں کو بتایا ہے کہ کورونانہ بازار سے پھیلتا ہے، نہ سبزی منڈیوں سے پھیلتا ہے، نہ کارخانوں اور شاپنگ مالز سے پھیلتا ہے، نہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ہوائی جہازوں سے پھیلتا ہے، اگر پھیلتا ہے تو صرف مسجد اورمدرسے سے پھیلتا ہے۔ نام نہاد ریاست مدینہ کی یہ پالیسی دین بیزاری کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان کے علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء نے کورونا کے پھیلاو کو روکنے اور انسانیت کو اس مہلک وباء سے بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے حکومت میں شامل بعض مذہب بیزار عناصر ایسا ماحول پیدا کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں جس میں حکومت اور مذہبی قوتیں آمنے سامنے کھڑی نظر آئیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو اس ملک کے اسلامی تشخص کے درپے ہے، جو مذہب اور اہل مذہب کو بدنام کرنے کے لیے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس طبقے کو کبھی عبادت کے لیے مسجد میں جانے کی توفیق نہیں ہوئی ہوگی لیکن مساجد و مدارس میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے لیے یہ مرے جارہے تھے۔
پاکستان کی مذہبی قیادت بھی اس صورتحال کو بھانپ چکی ہے اسی لیے انھوں نے کھل کرتحفظات کا اظہار کرکے قوم کی ترجمانی کی ہے۔ پیر کو پاکستان کی صف اول کی دینی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور انھوں نے ایک مشترکہ پالیسی بیان جاری کیا، اس پالیسی بیان میں انھوں نے مساجد و مدارس کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی بھی نشاندہی کی اور آیندہ کے لائحہ عمل کا بھی اعلان کیا۔ تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، وفاق المدارس العربیہ کے نائب صدر اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا نورالحق، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے صدر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی اور جامعہ خیر المدارس ملتان کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا فضل الرحیم، پاکستان شریعت کونسل کے جنرل سیکریٹری مولانا زاہد الراشدی متفقہ طور پر کہا ہے کہ جب سے دنیاکے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس کاپھیلاو شروع ہوا ہے ایک بات مسلسل دیکھنے میں آرہی ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے مذہب اور مذہبی اقدار و روایات کا دائرہ محدود کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بالخصوص پاکستان میں مسجد و مدرسہ، عبادات و مذہبی تعلیم اس کا ہدف ہے۔ مسجد کو بند کردینے اور عبادات کا سلسلہ گھروں تک محدود کرنے کی پالیسی کوروکنے کے لیے اہل دین کے تمام طبقوں کو مشترکہ محنت اور اعلی سطح مذاکرات کے ذریعے دنیا کو یہ موقف تسلیم کرنا پڑا کہ کورونا وائرس کی پھیلائو کو روکنے کے لیے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اور پابندیوں کو قبول کرتے ہوئے مسجد کو کھولا اور عبادات کو بہر صورت جاری رکھا جائے۔
اس سلسلہ نے ایوان صدر میں بھی مثبت کردار ادا کیا جس پر ہم سب صدر مملکت اور ان کے رفقاء کے شکر گزارہیں۔ مگر عمل در آمدکے دوران بہت سے مقامات پر سرکاری اہلکاروں کے تحقیر آمیز طرز عمل پر مسجد اور اہل مسجد کی کردار کشی کے بعض ذمے دار حضرات کا افسوسناک رویہ بدستور جاری ہے۔ ایک طرف عوامی اجتماع کے دیگر مقامات کو بتدریج سہولتیں دی جارہی ہیں اور معاشرتی ضروریات کی ملحوظ رکھتے ہوئے لاک ڈاون میں نرمی دیکھنے میں آرہی ہے جب کہ مسجد اور اجتماعی عبادات کو اس کا مستحق نہیں سمجھا جا رہا۔
یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ شروع سے ہی مذہب اور مذہبی روایات اور اقدار کو کورونا وائرس کے پھیلاو کا باعث قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسے فرقہ واریت کے ساتھ جوڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور اشتعال انگیزی میں اضافہ کا ذریعہ بنانے کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا جسے اجتماعی دینی قیادت نے حکمت عملی، تدبر کے ساتھ آگے نہیں بڑھنے دیااور معاملات کو بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیامگر مقصد اس کا وہی نظر آتاہے کہ مذہب اور مذہبی روایات اور دین کے ساتھ عام آدمی کے تعلق کو بہرحال کمزور کرکے دین کو اس کے معاشرتی کردار سے محروم کردیا جائے تو پاکستان کو ایک لادین یا فرقہ پرست ملک کے طور پر پیش کرکے قیام پاکستان کے تہذیبی و دینی مقاصد کو خدا نخواستہ ناکام بنا دیا جائے۔
یہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ جہاں حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کے سنگین نتائج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان سے مجموعی پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے، وہاں ملک بھر کے دینی حلقوں کی قیادتوں کو بھی ایک بار پھرمل بیٹھ کر ایک ملک کے اسلامی نظریاتی اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے از سر نو صف بندی کی ضرورت کا احساس دلایا جائے جس کے لیے رمضان المبارک کے فوراًًبعد اجتماعی پیش رفت ضروری ہوگئی ہے چنانچہ اس امر کی واضح اعلان کے ساتھ کہ ہم جہاں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر و اقدامات کی مکمل پابندی کے عزم پر قائم ہیں وہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کورونا بحران کے حوالے سے کسی پالیسی کو مذہب کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور فرقہ واریت کو ابھارنے کے لیے بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور دینی قیادتیں حسب سابق باہمی مشاورت و معاونت کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو ان شاء اللہ ناکام بنادیں گی۔
اب بھی پانی پلوں تک نہیں پہنچا، حکومت کا دامن صاف ہے تو سنجیدگی سے علماء کے تحفظات کا جائزہ لے اوران کا ہرممکن ازالہ کرتے ہوئے فوری طور پر مساجد و مدارس کا لاک ڈاون ختم کرنے کا اعلان کرے۔ حکومت میں شامل جن کالی بھیڑوں نے زائرین کے انتظامی معاملے اور دنیاکی پرامن ترین تبیلغی جماعت کو بدنام کیا ان کی نشاندہی کہ جائے۔ حکومت کو یہ اقدامات لینے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آج ستائیس رمضان ہے، دو یا تین روزے باقی ہیں، مساجد کو کھول کر مسلمانوں کو اجتماعی عبادت کی اجازت دی جائے۔ اس سے اللہ راضی ہوگا اور اس کی رحمت ہمیں مشکلات سے نکالے گی۔