Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shuhda e Azadi Ka Khawab (2)

Shuhda e Azadi Ka Khawab (2)

جب کہ ماں بیٹے کی زندگی اسی محلے میں گزری ہے۔ یہ چھوٹا سا تھا جب سے ہم ان دونوں کو اپنی گلی میں اسی مکان میں دیکھ رہے ہیں۔ اس عورت نے شاید اپنے بچے کو اسکول بھی اسی لیے داخل نہیں کرایا کہ اس کے باپ کا نام تو جانتی نہیں۔ اچانک اس نے اپنی ماں سے کہا اگر تو مجھے میرے باپ کا نام نہیں بتاسکتی، تو اس شرمندگی کی زندگی سے بہتر ہے میں خودکشی کرلوں۔

جیسے ہی ماں نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے، تو تڑپ اٹھی اور بھاگ کر اسے روکا اور کہا میری بات سن لو پھر جو جی میں آئے کرلینا۔ پورے گھر میں خاموشی طاری تھی سبھی اس عورت کے لب ہلنے کے منتظر تھی، وہ گویا ہوئی " پاکستان بننے کے بعد ہمارے والد اور خاندان کے تمام مرد و عورتیں ہجرت کرکے پاکستان کے لیے عازم سفر ہوئے، راستے میں کسی جگہ ہمارے قافلے پر ہندو بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے مرد جان توڑ کر لڑے، ان کی تعداد اور اسلحہ کی وجہ سے ہماری حفاظت نہ کرسکے او رسب شہید ہوگئے۔ لڑائی کے دوران میرے والد نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ہم عورتوں کو نکالنا چاہا، لیکن میرے علاوہ کسی کو بھی بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

میرے خاندان کی باقی عورتوں کا کیا حال ہوا میں نہیں جانتی۔ مردوں اور عورتوں میں سے کوئی زندہ بچا بھی یا نہیں، مجھے کچھ پتا نہیں۔ وہاں سے بھاگنے کے بعد میں انتہائی خوفزدہ حالت میں دن تو چھپ کر گزار دیتی اور رات کو اللہ کا نام لے کر اس راستے پر چل پڑتی، جس کا روانگی سے پہلے ہمارے مرد حضرات آپس میں تذکرہ کرتے تھے۔

ایک رات دوران سفر میں نے کسی جگہ پر ایک بچے کے رونے کی آواز سنی، آگے جاکر دیکھا تو کئی لاشوں کے درمیان ایک شیر خوار بچہ پڑا رو رہا تھا۔ میں نے اسے اٹھالیا، سینے سے لگائے سفر کرتی آخر کار پاکستان پہنچ گئی۔ مہاجر کیمپوں میں کسی جگہ بھی مجھے اپنے خاندان کا کوئی فرد نظر نہ آیا اور یوں میری دنیا صرف میرے اور اس بچے تک محدود رہ گئی۔ میری عمر کم تھی اورابھی میری شادی بھی نہ ہوئی تھی۔

اپنی باقی زندگی میں نے اس بچے کی خاطر تنہا گزار دی اور آج وہ بچہ میرے سامنے کھڑا ہے۔ اب بتاؤ رات کے اندھیرے میں لاشوں کے درمیان سے اٹھائے گئے بچے کے باپ کا نام مجھے کون بتاتا؟ ماں کی بات مکمل ہونے تک ہر آنکھ اشکبار تھی، اور وہ بیٹا جو کچھ دیر پہلے ماں کو جلی کٹی سنا رہا تھا، حیرت اور ممنونیت کا پہاڑ بنا کھڑا تھا۔ پھر شرمندگی کے ساتھ آگے بڑھا اور اس عورت کے حسانات کا بوجھ اٹھائے اس کے قدموں میں گر گیا۔ یہ ایک داستان ہے، ایک کروڑ انسانوں کی ہجرت میں ایسی لاکھوں داستانیں مل سکتی ہیں۔ اس ہجرت کو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی منزل پاکستان تھا ایک ایسا پاکستان جسے اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا، جس میں کلمہ طیبہ کا عملی نفاذ ہونا تھا۔

آج 73 سال بیت چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اپنی منزل حاصل نہیں کرسکے، ہم نے لاکھوں شہداء کے خون سے وفا نہیں کی، ہم نے تحریک پاکستان کے ہیروز اور ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا، تحریک پاکستان میں ہراول دستے میں شامل علماء کی تعلیمات اور خدمات پر پانی پھیر دیا، اسی لیے اب ہر گزرنے والا دن ہمیں ہماری منزل سے دور کرتا چلا جارہا ہے۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نظریاتی یکجہتی، فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محرومی ہے۔

سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہم اپنے گلوں کو محرومی کے طوق سے نجات نہیں دلاسکے۔ بس شتر بے مہار کی طرح دوڑے چلے جارہے ہیں، رستے کا پتا ہے نہ منزل کی خبر، بس دوڑے چلے جارہے ہیں۔ قائد اعظم کا نظریۂ پاکستان بڑا واضح تھا، اس میں کوئی کنفیوژن نہیں تھا، جن اکابرین اور مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا ان کی سوچ میں بھی کوئی ابہام نہ تھا، جب جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ تب تب ببانگ دہل بتایا گیا "لا الہ الا اللہ"۔ لیکن اس کے باوجود چند کھوٹے سکوں نے پوری قوم کو بھٹکا دیا، منزل سے دور کردیا۔

آج انھی کھوٹے سکوں کی نام نہاد روشن خیال اولادیں سوال کرتی ہیں کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہ سوال ان لاکھوں شہدائے آزادی کی روحوں کو تڑپا رہا ہے۔ یہ شہداء جنھوں نے ایک اسلامی پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، اب توان کی اولادیں بھی اپنے بزرگوں کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے پہلے دنیا سے جارہی ہیں، لیکن جو زندہ ہیں وہ آج بھی اس ملک کوحقیقی اسلامی مملکت کے طور پر دیکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تن، من دھن کی بازی لگانے کے لیے مستعد ہیں۔

میرے باباجی شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کی حفاظت ہمارا ایمان اور نظریہ ہے، کیونکہ یہ ملک لاالہ الا اللہ کے نام پر بنا ہے اور یہی اس کی بقا کا ضامن ہے اس لیے جس طرح لا الہ الا اللہ کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے عین اسی طرح اس ملک کی حفاظت بھی ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔

لیکن گزشتہ سات دہائیوں میں اس مملکت خداداد کا اقتدار جن کے پاس رہا وہ اللہ کی عدالت میں کیا منہ لے کے جائیں گے، اسے کیا جواب دیں گے؟ وہ ان سے پوچھے گا کہ میں نے تمہیں اقتدار دیا اختیار دیا پھر بھی تم اس ملک میں کلمہ طیبہ والا نظام رائج نہیں کرسکے… ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا، وہ خدا کے سامنے بھی شرمندہ ہوں گے اور ان لاکھوں شہدائے آزادی کے سامنے بھی جنھوں نے اس ملک کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا۔