Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mamla Panch Arab Ka

Mamla Panch Arab Ka

پاکستان کے دینی مدارس عالم اسلام میں علوم نبوت کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے، مدارس کے اسی نیٹ ورک نے پاکستان کے اسلامی تشخص کا دفاع کیا، دین کے ہر شعبے میں رجالِ کار دیے، خواہ عقائد ہوں یا عبادات، معاملات ہوں یامعاشرات، اخلاقیات ہوں یا سیاسیات، زندگی کے تمام شعبوں میں امت کی رہنمائی کے لیے افراد تیار کیے۔ تمام مدارس نے تعلیم وتربیت کو فروغ دیا، جہالت وناخواندگی کا قلع قمع کیا اور مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو درست سے درست تر بنایا۔

ملک کی شرحِ خواندگی کو بڑھانے میں نہ صرف حکومت کا ہاتھ بٹایا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کی، اگر صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی بات کی جائے تودینی مدارس کے اس بورڈکے ساتھ تقریباً 22ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں جن میں پچیس لاکھ کے لگ بھگ طلباء و طالبات علوم شرعیہ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی چار وفاقوں کے مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے دینی مدارس کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتاہے کیونکہ دین کی بہاریں انھی کی وجہ سے ہیں۔

دینی مدارس کا یہی نیٹ ورک ہے جو ملک کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے طلباء وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا ہے، ان کے سینے علوم نبوت سے منور کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان لاکھوں بچوں اور بچیوں کی کفالت بھی کرتا ہے۔ انھی مدارس نے اسلامی اخلاق اور انسانی اقدار کی آبیاری کی ہے۔ ملک میں بسنے والے تمام انسانوں کے ساتھ یک جہتی و رواداری اور صلح وآشتی کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اسلامی اصول پر سختی سے عمل کیا ہے۔

ملک وقوم کی تعمیر وترقی، وطنِ عزیز کی سلامتی، استحکام و خودمختاری کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ آج انھی مدارس کی وجہ سے معاشرے میں دین زندہ ہے بلکہ دین یا خیر کاکوئی عمل نظر آتا ہے وہ انھی دینی مدارس کا مرہون منت ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود دینی مدارس ہرسال ملک کو ایک لاکھ قرآن پاک کے حفاظ اور 30ہزار کے لگ بھگ علماء و مفتیان کرام دے رہے ہیں۔ دینی مدارس کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنا کسی حکومتی امداد کے رواں دواں ہے، سارا نظام اللہ پاک کی مدد و نصرت اور اﷲ کے بھیجے ہوئے نیک بندوں کے تعاون سے چل رہا ہے۔

کئی دہائیوں سے مدارس کا نظام اسی طرح چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ کئی ادوار ایسے گزرے جب مدارس کو تشکیک کی نگاہوں سے دیکھا گیا، طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے، کئی حکمرانوں نے مدارس کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا، وہ حکمران گزر گئے لیکن مدارس آج بھی شاد و آباد ہیں۔ موجودہ دورکو بھی دینی مدارس کے حوالے سے ایک مشکل دور سمجھا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں، کبھی نصاب میں تبدیلی کا شور۔

بجٹ تقریر میں حکومت کی جانب سے مدرسہ اصلاحات کے نام پر پانچ ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا گیا ہے حالانکہ ہماری نظر میں مدارس اصلاحات کا واویلا بے وقت کی راگنی کے سواکچھ نہیں کیونکہ دینی مدارس کوکسی قسم کی اصلاحات کی ضرورت نہیں۔ کسی کو شک ہو تو وہ ملک کی کسی بھی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے یا نصاب کا موازنہ دینی مدارس اور ان کے نصاب سے کرکے دیکھ لے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی سے گزر رہے ہیں، جہاں دنیا اسپیشلائزیشن کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہر علم کے ماہر پیدا ہورہے ہیں اور انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، پاکستان کے مدارس علوم شرعیہ کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے ہیں، یہاں علماء، فقہا، مفتیان کرام اور محدثین پیدا ہوتے ہیں، اگر کوئی احمق یہ سوچتا ہے کہ مدارس سے سائنس دان، انجینئیر اور ڈاکٹر نکلیں تو اس کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

ایک لمحے کے لیے ان احمقوں کی کسی بے تکی دلیل کو مان بھی لیا جائے، تو پھر پہلے انھیں، انھیں کی دلیل کی بنیاد پر کہیں کہ آپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے کوئی ایسا ڈاکٹر پیدا کرکے دکھاؤ جو خطبہ بھی پڑھے، درس قرآن بھی دے یا لاہور کی انجینئیرنگ یونیورسٹی سے کوئی ایسا کیمیکل انجینئیر تیار کر کے دکھاؤ جو فقہ و حدیث پر عبور رکھتا ہو۔ محض مدرسے اور مولوی سے بغض کی بنیاد پر آپ زمینی حقائق کو جھٹلا رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ دنیا اسپیشلائزیشن کی جانب بڑھ رہی ہے اور آپ ایسی دیگ پکانا چاہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں حلیم بن رہا ہے یا کھچڑی؟ ۔

دینی مدارس میں عصر حاضر کے مضامین تو پڑھائے جاسکتے ہیں لیکن ان علوم کے ماہر تیار نہیں کیے جاسکتے، اسی طرح یونیورسٹیوں میں عصری علوم پڑھنے والوں کو دینی علوم پڑھائے جاسکتے ہیں لیکن ایم بی بی ایس یا انجینئیرنگ کرنے والے کو عالم نہیں بنایا جاسکتا۔ جیسا کہ پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت کسی بھی سرکاری یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے والے کو اس وقت تک ڈگری نہیں ملے گی جب تک وہ قرآن مجید کا ترجمہ مکمل نہیں کرتا، اب ترجمہ پڑھنے سے انٹرنیشنل ریلیشنز کا کوئی طالب علم مولوی تو نہیں بن جائے گا۔ خدارا اس حساس مسئلے کونہ چھیڑا جائے، مدارس کی آزادی و خود مختاری نہ چھینی جائے۔

جس وقت سے مدرسہ اصلاحات کے نام پر پانچ ارب روپے کی خطیر رقم رکھنے کا اعلان ہوا ہے، اس وقت سے ملک بھرکے دینی حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے اور دینی قوتیں اور علماء ملت حکومت سے اس اعلان کی وضاحت مانگ رہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ اور جمعیت علماء اسلام سمیت بڑی دینی جماعتوں نے بجٹ میں مدارس اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی اس تجویز کو مسترد کردیاہے، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس میں پراعتماد گفتگو اور لب و لہجہ دیکھ کر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان کے جماعت اس معاملے پر حکومت کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں آڑے ہاتھوں لے گی کیونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے جس پر دینی حلقے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

موجودہ حالات میں مدارس اصلاحات کے نام پر 5 ارب روپے مختص کرنا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ کیونکہ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب کورونا وباء کی وجہ سے ملک بھرکے تمام مدارس میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اس دوران حکومت نے تمام طبقات کو ریلیف دیا، تنظیمات مدارس دینیہ کے ذمے داران حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ کم از کم مدارس کے یوٹیلٹی بل معاف کردیے جائیں اور ریلیف فنڈ میں مدارس کے اساتذہ اور طلباء کو بھی شامل کیا جائے لیکن حکومت نے ایک پائی نہ دی اور اب اچانک مدرسہ اصلاحات کے نام پر پانچ ارب روپے کی خطیر رقم مختص کردی گئی۔

حکومت مدارس کی مدد کا ارادہ رکھتی ہے تو فوری طور پر ان کے یوٹیلٹی بلز معاف کرنے کا اعلان کرے، مدارس کے مدرسین، خادمین اور طلباء کے لیے ریلیف پیکج دیا جائے۔ اس کے علاوہ کسی قسم کی امداد یا اصلاحاتی پیکج تنظیمات مدارس اور دینی قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے، اس سے محاذ آرائی کا دروازہ کھلے گاجسے بند کرنا مشکل ہوجائے گا۔