بیشک عزت و ذلت کے فیصلوں کا اختیار میرے رب کے پاس ہے، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کرکے رکھ دے، یہ اسی کے فیصلے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت اس کے فیصلوں کو بدل نہیں سکتی۔
جو اقدار کی خاطر جنگ لڑے عزتیں اور رفعتیں اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں، جس کا مطمع نظر محض مفادات ہوں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جایا کرتی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی افق پر ڈھونڈنے سے ہی ایسی شخصیت مل سکتی ہے جو مفادات کے بجائے اقدار کی سیاست کرتی ہو۔
سیاسی امور کے ماہرین اور مبصرین پاکستانی سیاست کے حوالے سے یہ بات بڑے وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست ایسی دلدل ہے جس پر جو بھی قدم رکھتا ہے وہ اس میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے اور آلودہ ہوجاتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان واحد ایسی شخصیت ہیں جسے اس دلدل کی کوئی پروا ہے نہ یہ دلدل ان کا دامن آلودہ کرسکی کیونکہ ان کا مطمع نظر مفادات نہیں محض اقدار ہیں۔
بادِ مخالف کے سامنے کھڑا ہمیشہ وہی رہ سکتا ہے جس کا دامن ہر طرح کی سیاسی، اخلاقی اور مالی بے ضابطگیوں سے پاک ہو، جس کے دامن پر ان برائیوں میں سے ایک چھینٹ بھی دکھائی دے گی وہ کھڑا رہنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔
اب آپ 2018 کے انتخابات کے بعد سے اب تک کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑا کے دیکھ لیجیے آپ کو مولانا فضل الرحمان کے سوا کسی جماعت کا کوئی لیڈربادِ مخالف کے سامنے کھڑا دکھائی نہیں دے گا، بلکہ بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے لیڈر لیٹے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مولانا کی سیاسی جدوجہد کی اساس مجبور انسانیت کو پرامن طور پر معاشی و سیاسی افزودگی عطا کرنا ہے جو جابر بالادست طبقات کے ہاتھوں پسی ہوئی ہے۔ اس کاز کی خاطر وہ آج میدانِ سیاست میں بادِ مخالف کے سامنے تنہا ڈٹ کرکھڑے ہیں۔
مولانا کے ساتھ اس وقت صرف ان کی اپنی جماعت یا دینی جماعتوں کا ہی ووٹ نہیں ہے بلکہ انھیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی جماعتوں کا وہ ووٹر جو اسلام اور پاکستان سے محبت رکھتا ہے اور اس ملک میں حقیقی جمہوریت دیکھنے کا خواہشمند ہے وہ بھی مولانا کے ساتھ کھڑا اور مولانا کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی جانب سے بار بار دھوکا دہی کے باوجود یہ جماعتیں اور ان کی قیادت مولانا کو ہی اپنا مسیحا مان چکی ہیں۔
اسی لیے رہبر کمیٹی نے گیارہ جماعتی اتحاد کی پگڑی مولانا کے سرپر رکھنے کی سفارش کردی ہے۔ مولانا کی جماعت کو ہمیشہ کے پی کے اور بلوچستان کے مخصوص علاقوں کی جماعت سمجھنے والے آج اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اب سیاسی منظرنامہ بدل چکا ہے۔ مولانا کے فالورز اب صرف کے پی کے اور بلوچستان تک محدود نہیں رہے بلکہ ملک کے چپے چپے میں موجودہیں۔
مخالفین سمجھتے تھے مولانا الیکشن ہار گئے اب ان کا ملکی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ تدبیر اکثر تقدیر سے پٹتی ہے اور ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، الیکشن ہارنے کے باوجود آج مولانا ملکی سیاست کا مرکز و محور بنے ہوئے ہیں، ساری کی ساری قومی سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔
آج صرف موجودہ حکمران ہی نہیں بلکہ اس ملک کے حقیقی طاقتور طبقات بھی اس مرد مجاہد سے خوفزدہ ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب ایمپائر کی نوازش سے تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تھا، اس کے کچھ سینئر کھلاڑیوں نے تکبرانہ لہجے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے مولانا کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے لہٰذا اب انھیں گھر بیٹھنا ہوگا۔ ادھر وطن عزیز کی مذہبی سیاست کے گوہر نایاب مولانا فضل الرحمان تھے جو دھاندلی زدہ الیکشن سے مسلط ہونے والی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے اور دیگر ہم خیال جماعتوں کو بھی یہ مشورہ دے رہے تھے کہ حلف نہ اٹھا کر اس پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان عوامی طاقت سے ایک ملک گیر مضبوط تحریک چلاتے ہیں۔ مولانا سے سرکاری رہائش گاہ خالی کرا لی جاتی ہے۔ بہرحال چار خود کش حملے برداشت کرنے والے مولانا فضل الرحمان سے سیکیورٹی تک واپس لے لی جاتی ہے، ان کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کیا جاتا ہے جو آج عروج پر ہے، اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر حکومت کا حصہ بننے والے وفاقی وزیر شیخ رشید کی خدمات لی گئیں، موصوف بھول گئے کہ جب مولانا کی حکومت مخالف تحریک عروج پر پہنچتی ہے، مولانا اسلام آباد لانگ مارچ کرتے ہیں وہ جو مولانا کی سیاست ختم کرنے کے اعلان کرتے ہیں، وہ مولانا کو رام کرنے کے لیے خفیہ کوششیں شروع کرتے ہیں۔
حکومت میں حصہ آفر کیا جاتا ہے، وزارتوں اور مراعات سے بھرپور پیکیج کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن مولانا انکار کردیتے ہیں۔ مولانا ڈٹ کر کھڑے رہے، جب بات نہیں بنتی تو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ نوازشریف اور زرداری جیسے مضبوط سیاستدانوں کے احوال سامنے دکھا کر ڈرایا جاتا ہے، نیب کے نوٹس بھجوائے جاتے ہیں لیکن مولانا ڈٹ جاتے ہیں کہ ہم تو وہ ہیں جو انگریز اور برطانوی سامراج سے نہیں ڈرے تم ہمیں کیا ڈراؤ گے۔
مولانا سے صرف تحریک انصاف حکومت ہی خوفزدہ نہیں، بلکہ اپوزیشن اتحاد کی بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) بھی ڈری ہوئی ہیں، انھیں جہاں نیب مقدمات کا سامنا ہے وہاں مولانا کی مقبولیت کا خوف بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اے پی سی میں مولانا کے خطاب کے دوران لائیو اسٹریمنگ بند کردی گئی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ مولانا کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کرنے والے خود مولانا سے پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور اپنی ہچکولے کھاتی حکومت کو بچانے کے لیے ہر آپشن استعمال کرنے کے لیے راضی ہیں۔ ادھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعتیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا صاحب ہی اصل اپوزیشن بن چکے ہیں، ان جماعتوں کے کارکنان بھی مولانا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
آج اپوزیشن بھی تسلیم کرچکی ہے کہ الیکشن کے بعد نتائج تسلیم نہ کرنے پر مولانا صاحب کا موقف ہی درست تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ایکسپوز کرنے کے ساتھ ساتھ مولانا نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی نکمی ترین اپوزیشن کو بھی آئینہ دکھاتے ہوئے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ان بڑی جماعتوں کو اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے مولانا کے موقف سے انحراف ممکن نہیں۔
اس وقت مولانا فضل الرحمان گفتار کے ہی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی بن کر کھڑے ہیں، کراچی سے خیبر تک ان کی مقبولیت کا گراف آئے روز بڑھتا چلا جارہا ہے، اندرون سندھ اور کراچی میں جمعیت ایک مضبوط قوت بن رہی ہے، پنجاب پر بھی اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ زمین بھی مولانا کو زرخیز ملے گی اور یہاں بھی عوامی قبولیت سرپرائز کی صورت میں مل سکتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو جو عروج، عوامی تائید اور مقبولیت آج مل چکی ہے اس کی مثال گزشتہ سو سالہ تاریخ میں نہیں مل سکتی۔