سرحدوں پر امن ہے مگر ملک کے اندر بہت سی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے تن کر کھڑی ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم کو فوج اپنا کمانڈر ان چیف اور ملک کا چیف ایگزیکٹو مانتی ہے۔ صدر کے دفتر سے کوئی شرارت نہیں ہورہی۔ بعض عدالتی شخصیات سے کچھ مسئلہ ہے مگر چیف جسٹس آئین و قانون کے مطابق کام چلا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی غیرقانونی و غیر آئینی کھچڑی نہیں پک رہی۔
دوسری طرف اپوزیشن ہے۔ پہلے سب کچھ مولانا فضل الرحمن دکھائی دیتے تھے اب ڈرائیونگ سیٹ پر آصف علی زرداری آ گئے ہیں۔ مولانا ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور اپنی زندگی کی سب سے اہم اننگز کھیل رہے ہیں۔ تین عشروں کے بعد وہ پہلی بار سرکاری عہدے سے محروم ہوئے ہیں لیکن میاں نوازشریف کی عقیدت مندی سے ان کوتنگ دستی محسوس نہیں ہوئی۔ پی ڈی ایم نے لاہور میں جلسہ کیا، محمود اچکزئی، سردی اور ن لیگ کی عدم مقبولیت نے اپوزیشن تحریک کی جان نکال دی۔ مولانا کو پروٹوکول درکار تھا، انہیں ہر جگہ نمایاں رکھا گیا لیکن جلسوں کا مقصد مریم نواز کو نمایاں بنانا تھا۔ دونوں مقاصد کامیاب ہوئے۔ مریم نواز نے نوجوان بلاول بھٹو کو جمہوریت کے نام پر ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا۔ عین ممکن تھا پی ڈی ایم سینٹ الیکشن اور ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کردیتا یا استعفوں کا اعلان کردیا جاتا کہ آصف علی زرداری سرگرم ہو گئے۔ پہلی ہدایت جاری کی کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے استعفے کے حق میں نہیں، دوسری اطلاع دی کہ پیپلزپارٹی وزیراعظم کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کے لیے لانگ مارچ کی حمایت نہیں کرے گی بلکہ عدم اعتماد کاراستہ چنا جا سکتا ہے۔ سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار نامزد کروا لیا۔ مریم نواز ریلیاں نکال رہی ہیں، ڈسکہ انتخابات پر سیاست کر رہی ہیں لیکن فیصلے اب نوازشریف، فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کی باہمی مشاورت سے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن کے طاقتور دکھائی دینے کے پس پردہ یہی تبدیلی ہے۔
وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہیں، اکثر لوگ اس بیان پر سر ہلا کر یقین کرلیتے ہیں، یقین کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عمران خان سے آج بھی بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ عمران خان کے بعض ساتھی ان کی کشتی میں چھید کر رہے ہیں۔ کیا واقعی وزیراعظم اس قدر کمزور ہوتا ہے۔ میرے سوال پر دوست نے دلیل پیش کی کہ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر مودی کو ضابطے کی کارروائی کے بنا پاکستان میں خوش آمدید کہنے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ مودی کی آمد کو خطے میں پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ سول اسٹیبلشمنٹ بھی اس معاملے میں سخت موقف رکھتی تھی لیکن سیاسی چیلنجوں سے نبرد آزما نوازشریف نے سب کا مشورہ مسترد کر کے وزیراعظم مودی کو اپنی نواسی کی شادی پر مدعو کیا، مودی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بنا ویزہ کئی گھنٹے تقریب میں شریک رہے، نواز شریف اور نودی نے تحائف کا تبادلہ کیا۔ اب ادھر کی سنیئے وزیراعظم کے ایک بہت چہیتے اور قریبی ساتھی کو سرکاری افسر نے آگاہ کیا کہ غیر ملکی افراد کا گروپ آرہا ہے آپ نے فلاحی منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے ان مخیر افراد کو ویلکم کہنا ہے اور ملاقات کے بعد رخصت کہنا ہوگا۔ باقی معاملات موقع پر موجود افسران سنبھال لیں گے۔ افسران نے مختلف منصوبوں پر وفد کوبریفنگ دی۔ وہ شخصیت خاموشی سے سی ساری گفتگو سنتا رہا۔ درمیان میں ایک بڑے افسر کے کان میں کہا کہ ان لوگوں سے کہو میرے حلقے کے ہسپتال کے لیے ایمبولینس کا عطیہ دیں۔ افسر نے کسی مصلحت کے تحت بات آگے نہ کی۔ وفد کو رخصت کرتے وقت مذکورہ شخصیت نے صرف "بائے" کا لفظ ادا کیا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد افسر سے گلہ کیا کہ ایمبولینس کا کیوں نہ کہا۔ اس نے مصلحت گوش گزار کر دی پھرکھڑے کھڑے اپنے ایک جونئیر افسر کو اس شخصیت کا حوالہ دے کر ان کے حلقے کے لیے ایمبولینس دینے کا کہا۔ دوسری طرف سے ایک کی جگہ دو ایمبولینس دینے کی پیشکش ہوئی تو صرف ایک بھیجنے کا کہا گیا۔ ایمبولینس کا انتظام ہونے پر افسران کا باری باری شکریہ ادا کیا گیا۔ اس واقعہ کو تھوڑا بدلا گیا ہے لیکن بتانا صرف یہ مقصود کہ کوئی حکومت اس وقت کمزور نہیں ہوتی جب اپوزیشن اس کے خلاف نکل آئے، کمزوری ہمیشہ چیف ایگزیکٹو کے کمزور پڑنے سے ظاہر ہوتی ہے۔
عمران خان کو یاد ہو گا لاہور میں تحریک انصاف کا دفتر دوچار لوگ چلاتے تھے۔ ایک تو وہ اشتیاق تھا، سب کی خدمت پر تیار، پارٹی اور عمران خان کے دانشورانہ کاموں کے لیے خواجہ جمیل مددگار ہوئے۔ لاہور میں چودھری اکرم کے بعد میاں ثانی پارٹی صدر بنے۔ شبیر سیال، امین ذکی، خواجہ جمشید امام، پھر 2011ء سے پہلے تک بہت سے پڑھے لکھے لوگ پارٹی کے لیے کام کرتے رہے۔ جب سے تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے پارٹی کمزور بنا دی گئی۔ سیف اللہ نیازی اپنی استعداد سے بڑھ کر محنت کر رہے ہیں لیکن پنجاب اور کے پی کے میں شاید پارٹی کو نچلی سطح پر فعال ہونے میں کچھ مسائل آ رہے ہیں۔ کسی جماعت کو اقتدار کے دنوں میں چیلنج آئے تو وہ اپنی تنظیم کے ذریعے اس چیلنج کا سیاسی جواب دیتی ہے۔ تحریک انصاف کی تمام طاقت صرف اس وجہ سے مٹھی سے نکلتی جا رہی ہے کہ اس کے کارکن حکومتی سرپرستی اور مدد سے محروم ہیں۔ ڈسکہ میں جو تشدد دیکھا گیا اس کی وجہ دونوں جماعتوں کا ٹکٹ دیتے وقت تگڑے امیدواروں کو ترجیح دینا تھا۔ اب ایک ہی نظام چل سکتا ہے، جمہوریت چلا لیں یا تگڑوں کو۔