اطہر ندیم صاحب سب کے ساتھ نہیں کھلا کرتے تھے، مجھ پر شفقت فرماتے۔ کئی بار اپنا کالم لکھواتے، درمیان میں کوئی اور بات یاد آتی تو پندرہ بیس منٹ اس پر خرچ کر ڈالتے یوں ایک گھنٹے کا کام تین چار گھنٹوں پر پھیل جاتا۔ ایک بارقوالی پر گفتگو کی۔ دو گھنٹے تک بلا وقفہ کیا عمدہ باتیں سننے کو ملیں۔ حکمرانوں اور ان کی اولاد کی نظریاتی تربیت اور بدعنوانی کا جائزہ لیتے تو بہت سی کہانیاں ڈھونڈ لاتے۔ ایک دن بولے قائد اعظم کے بعد جو حکمران آئے ان میں سے کئی نے حکمران اور باپ کے کردار میں توازن برقرار رکھا۔ اپنے دوست اور لیاقت علی خان کے بھانجے ہمایوں مرزا کا ایک واقعہ سنایا۔ لیاقت علی خان کے بڑے صاحبزادے ولایت علی خان اور ہمایوں مرزا ایک ہی زمانے میں علی گڑھ کالج کے طالب علم تھے۔ دونوں میں دوستی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو شہر میں مکانات ناکافی پڑ گئے۔ رہائشی ضروریات کے لئے نئی آبادیاں بسانے کی ضرورت تھی۔ ہمایوں مرزا انجینئر تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بیٹے ولایت علی خان کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ کراچی کے اردگرد جو وسیع سرکاری زمین پڑی ہے اس میں سے کچھ رقبہ لے کر اسے تیار کیا جائے اور یہاں رہائشی کالونیاں تعمیر کی جائیں۔ اس مقصد کے لئے ایک درخواست چیف کمشنر کراچی کو دی گئی۔ جس کمیٹی نے اس درخواست کی منظوری دینا تھی اس کے چیئرمین خود وزیر اعظم ہوتے تھے۔ اس درخواست کو وزیر اعظم کے سامنے ہر حال میں جانا تھا، لیاقت علی خان نے درخواست دیکھی تو آگ بگولہ ہو گئے۔ رات کو ان کے سیکرٹری نے ہمایوں مرزا کو فون کر کے بتایا کہ کل صبح چھ بجے وزیر اعظم کے گھر پہنچ جائیں۔ ان کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ ان کے پاس صرف اس وقت آپ سے بات کرنے کے لئے پانچ منٹ ہوں گے۔ اس لئے ہرگز دیر نہ ہو۔ مرزا صاحب ساری رات نہ سو سکے۔ علی الصبح وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔ وزیر اعظم تیار ہو کر باہر آئے اور دیکھتے ہی کہا!اچھا تو اب کالونیاں بنانے کا پروگرام ہے۔ کہنے لگے کہ اگرچہ یہ غلط اور ناجائز کام نہیں مگر تم نے ولایت کو ساتھ شامل کیوں کیا، اس کے نام سے درخواست کیوں دی، اس لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے؟ میں یہ درخواست نامنظور کر رہا ہوں۔
ملک غلام محمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ گورنر جنرل بنے تو بیٹے کو ساتھ رہنے کی اجازت نہ دی صرف اتوار کو آنے کی اجازت تھی۔ وہ بھی اس لئے کہ گورنر جنرل صاحب کو پوتے پوتی سے لگائو تھا اور وہ کچھ دیر ان کے ساتھ گزارتے تھے۔ چودھری محمد علی اور حسین شہید سہروردی کی تو بات ہی اور ہے۔ سہروردی مرحوم نے ساری زندگی لامکانی میں گزار دی۔ کراچی میں ہوتے تو بیٹی کے گھر قیام کرتے۔ لاہور میں دیال سنگھ مینشن میں ایک فلیٹ محکمہ متروکہ وقف املاک سے کرایہ پر لے رکھا تھا جو دفتر اور رہائش گاہ کے طور پر بیک وقت استعمال ہوتا۔ پاکستان کے سب سے مہنگے وکیل تھے لیکن ادھر پیسہ آتا ادھر ضرورت مندوں کو دے دیا۔ زیادہ تر پارٹی ورکروں کی مدد کر دیتے۔ سنا ہے ڈھاکہ میں دھان منڈی کے علاقے میں ایک پلاٹ خریدا جس پر اپنی زندگی میں مکان نہ بنا سکے۔
زمانہ بدل گیا ہے۔ اب وہ حکمران رہے نا ان کی ساکھ اور عزت کا خیال کرنے والی اولاد۔ یہاں تو باپ اور اولاد مل کر ریاستی طاقت سے کاروبار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جیب میں روپیہ ڈالتے ہیں۔ ایک جگہ گفٹ لکھ دیا، کہیں کاروبار لکھ دیا، کسی جگہ اسے نامعلوم کاروبار کا نامعلوم منافع کہہ دیا۔ تعجب اس بات پر کہ کوئی ادارہ یہ بددیانتی پکڑنے کے لئے جونہی متحرک ہوا یہ لوگ پائوں پڑ گئے۔ خاکی افسران کو مخالفین کی حکومت ختم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری فیصلوں کا ہجوم کر دیتے ہیں، جرم اور جمہوریت کا مرکب بنا کر ایک سموک سکرین تیار کرتے ہیں، جرم سیاست اور جمہوریت کے نعروں میں چھپ جاتا ہے، جیل میں پڑا، انجام کو پہنچنے والا مجرم دو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا باہر آ جاتا ہے، اقتدار پاتا ہے اور نئے سرے سے لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کاسلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ان کے طفیلئے سیاسی ورکر بن کر ساتھ چمٹے ہوتے ہیں۔ ان رہنماوں کے بچے اور آگے ان کے بچے سیرت نبوی پڑھتے ہیں نہ حضرت عمر کی گورننس کو جانتے ہیں، مالتھس نے آبادی اور وسائل پر جو بحث کی یہ اس سے دور رہتے ہیں، قدر زاید کہاں سے آتی ہے اور سماج میں معاشی عدم مساوات کے لئے یہ کیا کردار ادا کرتی ہے، ریاستیں کیسے طاقتور ہوتی ہیں اور طاقت کا غیر فوجی توازن کیسے برقرار رکھتی ہیں اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے یقین ہے ان تمام موضوعات پر محترمہ مریم نواز، بلاول بھٹو یا مولانا اسعد بن فضل الرحمن کی زبان سے کسی نے آج تک ایک جملہ نہیں سنا ہو گا۔ یہ وہ تعلیم ہے جو سماج، ریاست معاشیات اور گورننس کے متعلق انسانی فہم کو بہتر کرتی ہے۔ کسی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ فلاحی ریاست کیسے بنتی ہے، کسی نے آج تک کسی ایک گائوں کو ترقیاتی ماڈل پر منتقل کرنے کا تجربہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر کیسے دی جا سکتی ہے۔
پی ڈی ایم کا جلسہ بتاتا ہے کہ پینتیس برس سے اقتدار سے چمٹے رہنے کے باوجود ان لوگوں کو ملک کی کسی چھوٹی سی بستی کی تقدیر بدلنے کا موقع نہیں ملا۔ چلیں یقین کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کو فوج اجازت نہیں دیتی تھی کہ پیداوار بڑھائیں، انہیں عام آدمی کے دکھ سمیٹنے سے روک دیا جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ یہ بتانے کو تیار نہیں کہ وہ اور ان کے بچے اور ان کے پوتے، نواسے سرکاری منصوبوں سے کیسے لوٹ مار کرتے، ریاست اور شہری غریب ہو رہے تھے اور وہ کس طرح دولت کے ڈھیر جمع کر رہے تھے۔ یہ نوٹ جمع کرنے والے لوگ ہیں، سیاست کیا کریں گے جنہیں جدید سیاست کی الف بے نہیں آتی۔