وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ بلاول صاحب کا جمہوری حق ہے لیکن کیا انہیں کچھ خبر ہے ان کا اپناسندھ کس حال میں ہے؟ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے نعرے کی حدت اپنی جگہ، سوال مگر یہ ہے کہ عشروں کے اقتدار کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کو کیا دیا؟ اس نازک گھڑی میں کیا بلاول صاحب قوم کو یہ خوش خبری سنانے نکلے ہیں کہ عزیز ہم وطنوہم پورے پاکستان کو سندھ جیسا بنانے نکلے ہیں، آئو ہمارے ساتھ چلو۔ ہم نے دودھ اور شہد کی جو نہریں صرف سندھ میں کھود رکھی ہیں اب ان کا رخ ہم باقی صوبوں کی جانب بھی موڑ سکیں؟
تعلیم سے شروع کر لیتے ہیں۔ عام آدمی کو معلوم نہیں تو بلاول صاحب تو جانتے ہی ہوں گے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 اے میں یہ اصول طے ہو چکا۔ تو کیا بلاول صاحب کو خبر ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ کس حال میں ہے؟
کیا انہیں معلوم ہے کہ 2008ء تک سندھ میں 49 ہزار سے زائد سکول کام کر رہے تھے، جو 2018 تک کم ہو کر 42 ہزار کے قریب رہ گئے؟ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ دس سالوں کے دوران سات ہزار سکول کہاں گئے؟ سندھ میں وہ کون سا بھوت اترا جو ہر سال اتنے سکول ہڑپ کرتا چلا گیا اور اسے ابھی تک بد ہضمی کی شکایت بھی نہیں ہوئی؟
پاکستان پیپلز پارٹی، دروغ بر گردن راوی، خواتین کے حقوق کی علم بردار ہے۔ تو کیا کوئی ہے جو یہ رہنمائی فرما سکے کہ 2008ء میں اس صوبے میں گرلز سکولوں کی تعداد قریبا 9 ہزار تھی وہ 2017 تک کم ہو کر 5 ہزار تک کیسے آ گئی؟ یہ سارے سکول کیا ہوئے؟ اتنے سکول کیا جمہوریت کو بہترین انتقام کے تاوان میں دے دیے گئے؟
چلیں یہ تو ذرا مشکل سے سوالات ہیں جن کی تفصیل لینے میں وقت لگے گا اور بلاول صاحب اس وقت لانگ مارچ پر نکلے ہوئے ہیں۔ آسان سا سوال پوچھ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سندھ میں ان برسوں میں اتنے ہزار سکول کم ہو گئے لیکن اعداد و شمار میں لکھ دیا گیا کہ اس عرصہ میں طلباء و طالبات کی انرولمنٹ میں اضافہ ہو ا ہے۔ یہ تو کامن سینس کا سوال ہے اس کا جواب تو لانگ مارچ کے دوران بھی دیا جا سکتا ہے کہ یہ کمال کیسے ہو گیاکہ ہزاروں سکول بند ہو گئے لیکن طلباء کی تعداد پھر بھی بڑھ گئی؟
یہ تو ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جب یہ خبر سب کو شرمندہ کر گئی کہ سندھ میں 8 ہزار " گھوسٹ سکول" پکڑے گئے۔ کیا بلاول صاحب قوم کی رہنمائی فرمائیں گے کہ یہ ہزاروں گھوسٹ سکول سندھ میں کیسے قائم ہو گئے؟ خبر کے مطابق ان میں سے کچھ سکول ایسے بھی تھے جن کے ملازمین اور اساتذہ کو ہر ماہ تنخواہیں ادا کی جا رہی تھیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ تنخواہوں کا نیلام گھر سندھ میں لگا رہا یا یہاں کچھ سیاسی وابستگی بھی بروئے کار آئی تھی؟ اس بات کا تو کوئی امکان ہی نہیں کہ بلاول صاحب کے سندھ میں کوئی مائی کا لال کرپشن کر سکتا ہو، ازرہ کرم رہنمائی فرما دی جائے کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟
جو سکول موجود ہیں ان کی بھی سن لیجیے۔ ہاری ویلفیئر ایسو سی ایشن کی جانب سے دی پولیٹیکل اکانومی آف ایجوکیشن ان سندھ 2020، کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 53 فیصد سکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ لڑکوں کے 50 فیصد سکولوں میں ٹائلٹس کی سہولت نہیں ہے۔ لڑکے تو پھر بھی جمہوریت کو بہترین انتقام سمجھ کر کوئی راستہ نکال لیتے ہوں گے لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ لڑکیوں کے 47 فیصد سکول بھی ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔
مرحوم نواب شاہ کی دی ہوئی زمینوں کے صدقے قائم شہر نواب شاہ کو تو بے نظیر آباد کر دیا گیا اور سرکاری خرچ پر قائم ہونے والے کیڈٹ کالج کا نام بھی بختاور کیڈٹ کالج رکھ دیاگیا لیکن عالم یہ ہے کہ صوبے کے آدھے گرلزسکولوں کی بچیوں کے پاس ٹائلٹ کی سہولت نہیں اور انہیں سکول میں سات آٹھ گھنٹے گزارنا ہوتے ہیں۔ کیا یہ بچے انسان نہیں اور کیا ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں؟
ابھی 2020ء میں سندھ اسمبلی میں کھڑے ہو کر خود وزیر تعلیم نے یہ انکشاف فرمایا کہ سندھ میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 62 لاکھ ہے۔ کیا بلاول صاحب کے پاس کوئی فارمولا ہے کہ چند سال بعد جب یہ بچے جوان ہو جائیں گے تو ان کے روزگار کا کوئی امکان موجود ہو گا یا انہیں صرف اسی بات پر بغلیں بجانا ہوں گی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے؟
لڑکیوں کے لیے مختص سکولوں میں خواتین اساتذہ کی اوسط تعداد کا عالم اس سے بھی پریشان کن ہے۔ یہ اوسط تعداد بلوچستان اور سابقہ فاٹا سے بھی کم ہے۔ کیا بلاول صاحب بتاناپسند کریں گے کہ صوبے میں خواتین اساتذہ کی اوسط تعداد اتنی کم کیوں ہے؟ یہ عمران خان اور تحریک انصاف کی سازش ہے یا سندھ کی خواتین جمہوریت دشمن ہیں اور پیپلز پارٹی اور جمہوریت کے خلاف ایک سازشی ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہیں تا کہ اس عظیم اور غریب پرور حکومت کو ناکام بنایا جا سکے؟
عمران خان حکومت کی کارکردگی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ خلق خدا پر جو بیت رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت وفاقی حکومت سے کس کس شعبے میں کتنے کلوگرام بہتر کارکردگی دکھا چکی ہے کہ بلاول صاحب اقوال زریں سنانے اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں ؟
عمران خان کو پانچ دن میں استعفی دینے کی وارننگ کی بابت عمران جانیں اور ان کی حکومت۔ ایک عام شہری کے طور پر سوال یہ ہے کہ سندھ میں طرز حکومت بہتر کرنے کے لیے بلاول صاحب کی طرف سے کب اور کتنے دنوں کی وارننگ جاری کی جائے گی؟
یہ جتنے رجز پڑھے جا رہے ہیں، ان کا صرف عنوان عوام، جمہوریت اور خوشحالی ہے۔ متن اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ اب ہماری باری آنی چاہیے۔ یہ سیاسی اشرافیہ کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمکش ہے۔ کشمکش اقتدار میں کسی فریق کو کسی دوسرے فریق پر کوئی اخلاقی برتری حاصل نہیں۔ ان سب کا نامہ اعمال اور حتی کہ طریق واردات بھی انیس بیس کے فرق سے ایک جیسا ہے۔ یہ حزب اختلاف میں ایک جیسے رجز پڑھتے ہیں اور ایک جیسے اقوال زریں سنا سنا کر محفلیں لوٹتے ہیں۔ جب اقتدار مل جائے تو ان کی بے نیازی بھی ایک جیسی ہوتی ہے ا ور ان کی فرد عمل بھی۔
چنانچہ یہی سوالات جو بلاول صاحب سے پوچھے گئے ہیں، آپ چاہیں تو شاہ محمود قریشی صاحب سے بھی پوچھ سکتے ہیں جو وزیر خارجہ ہیں لیکن اس نازک موقع پر جب ساری دنیا اپنے امور خارجہ کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہے وہ اپنے امور داخلہ کو لے کر سندھ میں مصروف عمل ہیں۔