بھارت نے صرف یہ نہیں کیا کہ مقبوضہ کشمیر کو ناجائز طور پر اپنا حصہ قرار دے دیا بلکہ اس کی واردات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے غیر معمولی خطرات بڑھ رہے ہیں۔ داخلی سیاست کی دلدل میں تر پاکستان کی سیاسی اور ابلاغی اشرافیہ کے پاس کیا وقت ہے کہ ان منڈلاتے خطرات کا ادراک کر سکے؟
کہانی محض اتنی نہیں کہ بھارت نے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دی گئی داخلی خود مختاری ختم کر دی ہے، کہانی اس کے بعد سے شروع ہو رہی ہے اور وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی بدل رہا ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جس کی ابتدا مقبوضہ کشمیر سے ہو رہی ہے لیکن اس کا آخری رائونڈ بھارت آزاد کشمیر میں کھیلنا چاہے گا۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ معاملہ مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود رہے گا تو یہ نرم سے نرم الفاظ میں سادہ لوحی ہے۔
بھارت نے قریب چالیس لاکھ غیر ریاستی ہندو باشندوں کو غیر قانونی طریقے سے کشمیر کا ڈومیسائل جاری کر دیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ یہ جاری ہے۔ یہ وہ ناجائز آبادی ہے جو بھارت سے مقبوضہ کشمیر منتقل ہو رہی ہے۔ اس جبری شہریت کے تین روپ ہیں۔ اور تینوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پہلا روپ تو یہ ہے کہ اس آباد کاری میں آر ایس ایس کے انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو ترجیحی بنیادوں پر کشمیر کا شہری بنایا جا رہا ہے۔ یہ سنگھ پریوار کے کرائے کے قاتل ہیں جو وقت آنے پر مسلمان آبادی کے ساتھ وہی کچھ کر سکتے ہیں، جو قیام پاکستان کے دوران جموں میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ مجھے ڈر ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ وادی میں وہی کچھ ہونے جا رہا ہے، جو گجرات میں ہوا تھا۔ کوئی معمولی سا انتخابی تنازعہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
اس کا دوسرا روپ انتخابی فسطائیت ہے۔ جب آبادی کا تناسب بدل رہا ہے تو اسمبلی کی نشستوں میں بھی ردو بدل کیا جائے گا۔ اس کی ابتدا ہو چکی ہے اور آگے چل کر یہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سر دست جو ہو چکا ہے اس کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں کی تصویر کیسی خطرناک ہوگی۔
جموں میں ہندو اکثریت ہے، اس لیے جموں کی نشستیں جو پہلے 37 تھیں، اب بڑھا کر 43 کر دی گئی ہیں۔ دوسری جانب وادی کا عالم یہ ہے کہ وہاں پہلے 46 نشستیں تھیں اور ان میں صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے اور اب یہ 47 ہوگئی ہیں۔ یہ تناسب اب دھیرے دھیرے بدلتا جائے گا اور جموں کی آبادی کو اگلے چند سالوں میں وہاں تک لے جایا جائے گا کہ جموں اور وادی کی نشستیں برابر ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی ہندو آبادکاری شروع ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی ا ور غیر ریاستی کی تقسیم پہلے ہی مٹ چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسی حد بندیاں ہوں گی کہ وادی میں بھی نصف درجن نشستیں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔
یہ سارا منظر نامہ جواوپر بیا کیا گیا ہے، ہمیں ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ اس خوفناک منصوبے کی ابتدا ہے، جسے آگے کسی مرحلے پر جا کر بھارت عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گا۔
بھارت کو معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا بھارت اپے تئیں جیسی مرضی قانون سازی کرتا رہے، کشمیر متنازعہ ہی رہے گا اور انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں اسے بھارت کا حصہ نہیں تصور کیا جائے گا۔ اس لیے وہ دھیرے دھیرے اسی جانب بڑھ رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بہت تیزی سے بدلا جا رہا ہے۔ چالیس لاکھ ہندو تو وہاں آ چکے۔ آنے والے دنوں میں یہ تعداد دگنی اور پھر اسی تناسب سے بڑھے گی۔ خطرہ یہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب یہاں مسلمان اقلیت میں ہوں گے اور ہندو اکثریت میں ہو چکے ہوں گے۔
اس کے ساتھ ہی بھارت اس منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے کہ مسلمان جو اقلیت میں بدل چکے ہوں وہ معاشی طور پر اتنے کمزور کر دیے جائیں کہ وہ اپنی آبادی کے تناسب کے مطابق بھی ووٹ ڈالنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں اور معاشی خوف انہیں عملی طور پر ہندو شائونزم کی خواہشات کے مطابق ہانکے جانے پر مجبور کر دے۔
چنانچہ ڈیمو گرافی کی تباہی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی معاشی تباہی پر بھی کام جاری ہے۔ کشمیری دانش ور سبور سیدکی مطابق کشمیر چیمبر آف کامرس کا یہ دعوی ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کے چار مہینوں میں کشمیری معیشت کو یوں منظم طریقے سے تباہ کیا گیا کہ اسے 178 ارب روپے کا نقصان ہوا اور کشمیر میں قریب پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے۔
اس معاشی تباہی کا متبادل ہندو شائونزم ہے۔ معیشت اب تیزی سے ہندو کے قبضے میں جا رہی ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت مسلمانوں کے معاشی امکانات محدود تر کیے جا رہے ہیں۔ ان کی زمینوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری ضرورت کے نام پر انہیں معمولی قیمت پر ہتھیایا جا رہا ہے۔
وادی میں بھارت اس وقت اسی فارمولے پر عمل کر رہا ہے جس پر اسرائیل عمل پیرا رہا اور ہے۔ یہ سارا کام اسرائیلی تعاون اور اس کی مشاورت سے ہو رہا ہے اور اسرائیلی وفود کے مقبوضہ کشمیر کے دورے اب کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ جس طریقے سے اسرائیل سے فلسطینی مسلمانوں کو کچلا گیا۔ انہیں اسی طرح اقلیت میں بدلا جا رہا ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ ان کے معاشی امکانات اسی طرح چھینے جا رہے ہیں جیسے فلسطین میں مسلمانوں کے معاشی امکانات اسرائیل نے چھینے۔
جب ان تمام ہتھکنڈوں سے مسلمان دیوار سے لگا دیے جائیں گے تو بھارت اقوام متحدہ سے کہے گا کہ لیجیے ہم استصواب رائے کو بھی تیار ہیں۔ آپ خود اپنی نگرانی میں استصواب رائے کروا لیجیے اور شہریوں سے پوچھ لیجیے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس واردات کے بعد اس کی شر انگیزی کا سا را فوکس آزاد کشمیر پر ہوگا۔ ساتھ ہی سی پیک کے معاشی امکانات کو سبو تاژ کرنے کے لیے خطرہ ہے کہ بھارت گلگت میں شر پسندی نہ کر دے۔ یہ جو ابھی سے بھارتی قیادت آزاد کشمیر میں گھس کر کارروائی کی باتیں کر رہی ہے یہ محض کسی بھارتی رہنما کا انفرادی جنون نہیں ہے۔ یہ بھارت کی مربوط پالیسی کا حصہ ہے جو لمحہ لمحہ ظہور کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہمیں ان خطرات کا احساس ہے جو ہمارے سر منڈلا رہے ہیں؟ داخلی سیاست نے ہمیں یوں الجھا رکھا ہے کہ ہماری سیاسی اور صحافتی اشرافیہ کے پاس اب سیاست کے سطحی موضوعات کے علاوہ کچھ بچا ہی نہیں۔