وڈیرہ اب پانی نہیں چھوڑے گا۔ وڈیرا تو وڈیرا، اس کا باپ بھی اب پانی نہیں چھوڑے گا کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے اب کی بار معاملہ پاکستان کے اپاہج نظام قانون و انصاف سے نہیں جہاں مظلوم کو فیصلہ (انصاف نہیں، فیصلہ) لینے کے لیے ایوبؑ جیسا صبر اور قارون جیسا خزانہ اور بیس پچیس سال کی مکمل فراغت درکار ہوتی ہے بلکہ اب معاملہ ان سے آن پڑا جہاں نہ حکم امتناعی کی بھول بھلیاں ہیں، نہ بھاری فیسوں والے وکیلوں کے قانونی کھلار، نہ یہاں فیصلے محفوظ ہوتے ہیں، یہاں تو ایک لمحے میں، کھڑے کھڑے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے والے نے کہہ دیا کہ وڈیرہ اب پانی نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر چھوڑا تو وڈیرے کا اپنا پانی کہیں اور چلا جائے گا۔
یہ شہداء کے اہل خانہ کی کسی تقریب کا کوئی منظر تھا۔ ایک شہید کی سادہ سی بچی نے ا ٓرمی چیف سے شکایت کی کہ وڈیر ہ ہماری طرف پانی چھوڑ دیتا ہے۔ آرمی چیف نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا آپ تسلی سے گھر جائیں، وڈیرا اب پانی نہیں چھوڑے گا۔ آرمی چیف شہدا کے اہل خانہ کا بڑا ہوتا ہے، اسے یہی کرنا چاہیے تھا۔ جمہوریت تخلص کرنے والے اہل دانش کی بے چینی اپنی جگہ، سوال مگر یہ ہے کہ جس بچی کا باپ اس ملک پر قربان ہوگیا اس بچی کو وڈیروں کی وحشت سے بچانے کے لیے اس ملک کے نظام قانون و انصاف کے پاس کیا حل موجود ہے؟ آئین اور قانون سے جڑے اقوال زریں اپنی جگہ لیکن ایک پل کو زمینی حقیقتیں کھود کر بتائیے کہ بچی حصول انصاف کے لیے کہاں جاتی؟ کہاں کہاں جا کر روتی اور کس کس دیوار سے ٹکر مارتی؟ اس نظام انصاف میں اس بچی کو انصاف کی بروقت فراہمی کا کوئی ایک روزن کہیں کھلا ہو تو بتائیے۔
فرض کریں آرمی چیف اسے کہتے کہ بیٹا تہتر کے آئین کے تناظر میں، آپ کو میرے پاس نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ ملک کے نظام قانون و انصاف کی دہلیز پر دستک دینی چاہیے تھی جہاں انصاف کے اتنے جھرنے اتنی وافر تعداد میں پھوٹ رہے ہیں کہ ابھی ماضی قریب میں ان سے ڈیم بنانے کے لیے ایک چیف جسٹس کو فنڈ اکٹھا کرنے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
وہ بچی مشورے پر عمل کرتی اور تھانے چلی جاتی۔ پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیتی۔ پھر کیا ہوتا؟ کیاا س صورت میں وہ پھر شکایت کرتی اور جواب میں جی ایچ کیو کی جیک برانچ اسے لکھ بھیجتی کہ پیاری بیٹی انصاف کے جگہ جگہ پھوٹتے ان چشموں میں اگر تمہاری ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی توکیا ہوا؟ تم22 اے کے تحت جسٹس آف پیس (سیشنز جج) کے پاس چلی جائو۔
فرض کریں ڈیم بننے سے پہلے پہلے، ایف آئی آر بھی درج ہو جاتی، پھر کیا ہوتا؟ کیا وڈیرے کی گرفتاری ہو جاتی؟ کیا ایس ایچ اوسے آئی جی تک اور مجسٹریٹ سے چیف جسٹس تک کوئی ہے جو ایسی بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسی اعتماد سے کہہ سکتا کہ جائو بیٹا اب وڈیرا پانی نہیں چھوڑے گا، اور پھر وڈیرا واقعی پانی نہ چھوڑتا؟ یہاں تو چیف جسٹس وڈیرے کی اولاد سے جیل میں خود چھاپا مار کر شراب برآمد کرتا ہے تو لیبارٹری تک جاتے جاتے شراب کی بوتل شہد بن جاتی ہے۔
فرض کریں وڈیرا گرفتار ہو جاتا تو کیا اس کی چوبیس طول بلد اور چھبیس عرض بلد پر محیط تجوری کے سائز کی برکت سے کیے گئے وکیل کے مقابلے میں یہ بچی شہید باپ کی چند ہزار کی پنشن سے کوئی وکیل کر پاتی تاکہ تہتر کے آئین کے تناظر میں اسے فوری اور سستا انصاف مل سکے؟
اس دوران اگر وڈیرے کے کارندے اس بچی کے بھائیوں کو اٹھوا لیتے، اغوا کر لیتے، تشدد کرتے یا کوئی اور جرم کرتے تو کیا اس ملک کا حسین و جمیل اور ضرورت سے کئی ہزار گنا مہنگا نظام قانون و انصاف اس بچی کی داد رسی کر پاتا؟
فرض کریں وڈیرا قانون ہاتھ میں نہ لیتا اور تہتر کے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قانون کو اپنا ہاتھ بنانے کی ٹھان لیتا۔ اس بچی اور اس کے اہل خانہ کی زندگی جہنم بنا دینے کے لیے کیا وڈیرے کی تجوری کا میل ہی کافی نہ ہوتا جس کی زیارت کرتے ہی قانون وڈیرے کے پائوں دابنے لگ جاتا۔ کیا اس دوران اس بچی اور اس کے اہل خانہ پر ایسے ایسے مقدمات نہ قائم ہو جاتے کہ لگ پتا جاتا؟
یہ نمونے کے چند سوالات ہیں۔ آپ کسی ایک سوال کا جواب بھی ایسا دے سکیں جس سے اس نظام قانون و انصاف پر کوئی اعتبار باقی رہ سکے تو اس سے اچھی خبر شاید ہی کوئی اور ہو۔
آئین اور جمہوریت کے سارے اقوال زریں سر آنکھوں پر لیکن اقوال زریں کا یہ سارا مجموعہ بے روح ہے۔ آئین کی سربلندی کا یہاں عملا معنی صرف اتنا ہے کہ چند گھرانوں کی جمہوری آمریت کے اقتدار کے حق پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ عدالتوں کی فعالیت اور انصاف کی فراہمی کا یہاں پیمانہ صرف اتنا ہے کہ ہم جس جس ر ہ نما کے حصے کے بے وقوف ہیں کیا عدالت کے فیصلے اس رہنما کے حق میں ہیں یا نہیں۔ عام آدمی اور اس کی محرومیاں یہاں کبھی زیر بحث نہیں آئیں۔
ہر خرابی کی وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ بلاشبہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اور بلاشبہ نظام ریاست جمہوری انداز سے آئین ہی کے مطابق چلنا چاہیے، لیکن کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ جمہوریت یہاں کبھی آئی ہی نہیں۔ جن ادوار کو جمہوری ادوار کہتے ہیں و ہ بھی جمہوری نہیں ہوتے۔ یہ خاندانی آمریتیں ہوتی ہیں۔ ایک آمریت جاتی ہے دوسری آ جاتی ہے۔ یہاں عام آدمی پر پارلیمان کے دروازے بند ہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام سے سب سیاسی جماعتیں خائف ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کارکن کی حیثیت صرف مزارعین کی ہے۔ چند گھرانے دولت اور طریق واردات کی بنیاد پر مسلط ہیں اور اسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔
آئین کا احترام سر آنکھوں پر کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے ورنہ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اجنبی دستاویز ہے۔ اجنبی زبان میں لکھی ہوئی ہے۔ عوام کی اکثریت نہ اسے پڑھ سکتی ہے نہ نصاب میں کسی نے پڑھایا ہے۔ آئین کا نہ کسی کو کچھ علم ہے نہ آئین سے عوام کی اس طرح کوئی وابستگی پیدا ہو سکی ہے۔ چنانچہ جب کبھی اس آئین کو پامال کر دیا جاتا ہے تو عوام لاتعلق بیٹھے دہی کے ساتھ قلچہ کھاتے رہتے ہیں۔ ان کی جانے بلا کہ آئین کیا ہوتا۔ عوام آئین اس کی عملداری اور حرمت سے عملا لاتعلق ہیں۔ کیا کبھی کوئی سوچے گا کہ ایسا کیوں ہے؟
جمہوریت اور آئین کے بے روح اقوال زریں سنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ان میں اگر کچھ خیر ہے تو وہ عوام کو نظر آنی چاہیے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ باقی کہانیاں ہیں اور قانونی کھلار، جن کا زمینی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جو وڈیرے کو پانی چھوڑنے سے بھی نہیں روک سکتیں۔